کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 133
مقام پر لکھتے ہیں:
’’إن الحدیث الصحیح له وزنه والعمل به في فروع الشریعة له مساغ وقبول.‘‘ [1]
’’صحیح حدیث ایک وزن رکھتی ہے اور فروع شریعت پر عمل کرنے میں صحیح احادیث کو قبول کیا جاتا ہے۔‘‘
اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’الواجب حقا أن یسمی اللّٰہ قبل الأکل فقد صحَّ قول رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : سم اللّٰہ وکل بیمینك وکل مما یلیك.‘‘ [2]
’’کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا لازم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک ہے کہ کھانے سے پہلے اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور سامنے سے کھاؤ۔‘‘
مذکورہ اقتباسات سے محسوس ہوتا ہے کہ شیخ موصوف بسااوقات بغیر سوچے سمجھے ہی کلام کرجاتے ہیں، جیسا کہ ان کے کلام میں تناقص وتعارض واضح ہے۔ ایک طرف فرض کے ثبوت کے لئے دلیل ِقطعی کو ضروری قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب حدیثِ صحیح کو بلا شرط قبول کرنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ صحیح اصول یہی ہے کہ فرض دلیل صحیح کے ساتھ ثابت ہوجاتا ہے، خواہ وہ دلیل قطعی ہو یا ظنی۔ خبر واحد کو جب امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہو جائے اور امت اس پر عمل کررہی ہو تو علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی اصول جمہور اہل علم نے ذکر کیا ہے۔
شیخ سلمان بن فہد العودہ خبر واحد کے دلیل قطعی ہونے کے سلسلہ میں مکاتب اربعہ میں سے ہر مذہب کے فقہا رحمہم اللہ کے اقوال کو پیش کرکے ثابت کرتے ہیں کہ مذکورہ بات امت کے سلف وخلف کے ہاں مقبول ہے:
فقہاے احناف : اِمام سرخسی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 490ھ) وغیرہ
فقہاے مالکیہ: قاضی عبدالوہاب رحمہ اللہ وغیرہ
فقہاے شوافع: ابوحامد الاسفرائینی،قاضی ابوالطیب الطبری، ابواسحاق شیرازی رحمہم اللہ وغیرہ
فقہاے حنابلہ: ابوعبداللہ بن حامد، ابویعلی( متوفیٰ 307ھ) ، ابوالخطاب رحمہم اللہ وغیرہ۔
اِمام بلقینی رحمہ اللہ (متوفیٰ 805ھ)نے الاصلاح میں لکھا ہے:
"نقل بعض الحفاظ المتأخرین عن جمع من الشافعیة والحنفیة والمالکیة والحنابلة أنهم یقطعون بصحة الحدیث التی تلقته الأمة بالقبول"[3]
’’بعض متاخرین علماے حدیث نے شافعیہ، حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ اگر خبر
[1] السنة النبویة: ص65
[2] أيضاً: ص82
[3] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص114