کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 132
((فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا)) [1]’’وہ عورت بدکار ہے جو کہ اپنا نکاح خود کر لیتی ہے۔‘‘ اس مسئلہ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر عورت کو بذات خود نکاح کی اجازت دے دی جائے، تو ممکن ہے کہ وہ کسی نوجوان کے ساتھ خلوت میں متفق ہوجائے اور ان سے زنا کا وقوع ہوجائے۔ اس دلیل کے ساتھ کہ وہ عورت اس نوجوان کے خاوند ہونے پر رضا مند ہے او راس نوجوان نے اس عورت سے عقد کرلیا ہے، حالانکہ یہ سراسر زنا ہے۔ اگر نکاح ہے تو اس کی شروط، مہراورگواہ کہاں ہیں؟ ’خبر واحد‘کے حوالے سے محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ خبر واحد کے احتمالی اور ظنی ہونے کے ضمن میں رقم طراز ہیں: ’’ومن الخیر أن نعلم أن الفرض لایثبت إلا بدلیل قطعی وإن التحریم لا یثبت إلا بدلیل قطعی وأن الأدلة الظنیة لها دلالة أقل من ذلك. ‘‘[2] ’’ہمارے لئے بھلائی اس امر میں ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ فرض دلیل ِقطعی کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور تحریم بھی دلیل قطعی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ دلیل ظنی قوت میں دلیلِ قطعی سے کم درجہ رکھتی ہے۔‘‘ خبر واحد کا شیخ کے ہاں کیا مقام ہے اس حوالے سے مسئلہ رضاعت کے ضمن میں شیخ کا یہ قول گذر چکا ہے کہ ’’ ہم کئی بار یہ تاکید کرچکے ہیں کہ اخبار احاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ محفوظ کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارض ہوں اور دین میں وہم اور شک ڈالیں تو انہیں قبول کرلیا جائے۔‘‘ [3] اس قسم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ خبر واحد کو دین میں شرعی مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔ مذکورہ موقف پر تبصرہ موصوف نے یہاں (اپنے فہم کے مطابق) ایک اصولی قاعدہ ذکر کیا ہے کہ فرض دلیل قطعی (یعنی قرآنی آیت یا حدیث متواتر) کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ گویا ان کی رائے میں خبر واحد دلیل قطعی نہیں، بلکہ دلیل ظنی ہوتی ہے، لہٰذا خبر واحد سے فرض ثابت نہیں ہوسکتا۔ محمد الغزالی﷫ نے بعینہٖ یہی اصول اپنی کتاب مستقبل الاسلام کے صفحہ 74پر بھی ذکر کیا ہے۔ ہمارے خیال میں کہ ہم موصوف کے اس موقف پر کوئی تبصرہ خود کرنے کی بجائے شیخ کا اپنا کلام اس حوالے سے پیش کر دیں، جس میں وہ اپنے اس موقف کی خود تردید فرما رہے ہیں۔ وہ اپنی کتاب السنۃ النبویۃ میں ہی ایک
[1] القزويني، أبو عبد اللّٰه محمد بن يزيد، سنن ابن ماجة، أبواب النكاح، باب لا نكاح إلا بولي: 1882، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م [2] السنة النبویة: ص 174 [3] أيضاً: ص 56