کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 131
معنیٰ ہے، عقد یا جماع؟دلائل سے معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ نکاح سے مراد جماع ہے، عقد نہیں ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے کہا تھا: ((أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ)) [1] ’’کیا تو چاہتی ہے کہ تو رفاعہ کی طرف لوٹ جائے اور یہ اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ تو اس کی لذت اور وہ تیری لذت نہ چکھ لے۔‘‘ اس روایت کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ﴿حتی تنکح﴾ کا معنی ((حتی یجامع زوجا آخر))ہوگا۔ گویا اس سے ’عقد‘ مراد لینا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی عورت عقد کے بعد جماع کئے بغیر طلاق لینا چاہے تو وہ اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ جمہور علما بشمول قاضی ابویوسف رحمہ اللہ (متوفیٰ 182ھ)اور اِمام محمدبن حسن شیبانی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 189ھ) کے سب بغیر ولی نکاح کے عدم جواز کے ہی قائل ہیں اور ان کی دلیل اس سلسلہ میں یہ آیت کریمہ ہے: ﴿ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ﴾ [2] ’’پس تم انہیں مت روکو اس بات سے کہ وہ اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کریں۔‘‘ اِمام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هذا أبین آیة في کتاب اللّٰہ تدل على أن النکاح لا یجوز بغیر ولي.‘‘ [3] ’’ قرآن میں سب سے زیادہ واضح نص جو بغیر ولی کے نکاح کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے۔ ‘‘ کیونکہ اگر حق مخالفت، باپ کو حاصل نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے منع نہ فرماتا کہ تم ان کو مت روکو۔اس معنیٰ کی کئی اور روایات صحیحہ بھی کتب حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً ((لا نکاح إلا بولی)) [4] ’’ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔‘‘ اِمام حاکم رحمہ اللہ ( متوفیٰ 405ھ)نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جس میں حضرت عائشہ، ام سلمہ، زینب، علی، ابن عباس، معاذبن جبل،عبد اللہ ابن عمر، ابوذرغفاری، حضرت مقداد، عبد اللہ ابن مسعود، جابربن سمرہ، حضرت ابوہریرہ، عمران بن حصین، عبداللہ بن عمرو بن العاص،مسور بن مخرمہ او رانس بن مالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح بخاری، كتاب الشهادات، باب شهادة المختبي: 2639 [2] سورة البقرة:2: 232 [3] الأم: 5/13 [4] الهيثمي، أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر، صحيح ابن حبان، كتاب النكاح، باب ما جاء في الولي والشهود: 1234، دار الثقافة العربية، دمشق، الطبعة الأولى، 1992م