کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 130
شیخ کی مذکورہ عبارت کا جائزہ اس حدیث کو اِمام بخاری، اِمام مسلم، اِمام ترمذی، اِمام ابوداؤداو ر اِمام نسائی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے۔ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں شافعیہ اور حنابلہ کے حوالے سے جو بات کہی ہے، وہ محل نظر ہے کیونکہ اِمام احمد رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ثابت ہیں۔ ایک روایت میں وہ نکاح کرنے میں بالغہ پر جبر کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی رضا مندی سے نکاح کیا جائے اوریہی دوسری روایت ہی راجح ہے اور اسی کواِمام ابن تیمیہ اور اِمام ابن قیم رحمہما اللہ وغیرہ جیسے حنبلی علما نے ترجیح دی ہے۔ البتہ اِمام شافعی رحمہ اللہ کی نسبت سے شیخ کا کلام درست ہے کہ ان کے نزدیک باپ بالغہ لڑکی کی شادی اس کی رضا مندی کے خلاف کرسکتا ہے،[1] لیکن اس بارے میں ہم عرض کریں گے کہ یہ اِمام شافعی رحمہ اللہ کا اجتہاد ہے، جبکہ اجتہاد درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ اس مسئلہ میں درست بات وہی ہے جس پر اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751ھ)اور خود شیخ الغزالی رحمہ اللہ ہیں کہ بالغہ پر جبر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ نکاح کے لئے اس کی رضا مندی ضروری ہے۔ عورت کی توہین و تحقیر کے سلسلے میں شیخ نے جو بات کہی ہے، اس حوالے سے ہماری رائے یہ ہے کہ یہ فتویٰ ان ائمہ کرام کا اجتہاد ہے۔ اس اجتہاد کی دلیل ان ائمہ کے پاس حضرت ابوبکر کا عمل ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کم عمری میں ہی کر دی تھی۔ بہرحال اِمام شافعی رحمہ اللہ کا یہ اجتہاد ایک اجتہادی رائے ہے، کیونکہ باپ کو جب اپنی بالغہ بیٹی کے مال میں اس کی رضا مندی کے بغیر تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہے تو اس کی زندگی کے بارے میں یہ اختیار اسے کیسے دیا جاسکتا ہے۔ [2] ’عورت کا از خود اپنا نکاح کرنے ‘ کے سلسلہ میں شیخ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ عورت کے نکاح کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عورت ازخود اپنا نکاح کرسکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی ہے۔ جیساکہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ لہٰذاعورت کا از خود اپنانکاح کرلینا صحیح ہے، جبکہ: ((أیما امرأة نکحت نفسها فنکاحها باطل باطل باطل))والی حدیث ظاہر قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود اور باطل ہے۔‘‘ [3] مذکورہ مسئلہ میں شیخ موصوف کے موقف کا جائزہ موصوف کی مذکورہ تاویل محل نظر ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس آیت مبارکہ میں نکاح کا کیا
[1] الشافعي، أبو عبد اللّٰه محمد بن إدريس، الأم: 5/18، دار المعرفة ، بيروت، لبنان، 1990م [2] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص103 [3] السنة النبویة: ص25