کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 13
تھی۔ تجربے سے سناروں کو یہ معلوم ہوا کہ لوگوں کا جو سوناان کے پاس بطورامانت محفوظ ہے لوگ اس کا دسواں حصہ ان سے نکلواتے ہیں اور نو حصے سونا ان کے پاس بے کار پڑا رہتا ہے ۔اب سناروں نے اس امانتی سونے کو دوسرے لوگوں کو سود پر ادھار دینا شروع کر دیا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ اس نو حصے سونے کی رسیدیں بھی سود پر آگے جاری کرنا شروع کر دیں یعنی وہ سونا پھر ان کے پاس موجود تھا لیکن ان کی رسیدیں وہ سود پر جاری کر رہے تھے۔یہ ایک قسم کا دھوکا، فراڈ اور لوگوں کی امانتوں کا غلط استعمال تھا۔ دوسرا مرحلہ دوسرے مرحلے میں ان سناروں نے اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کے لیے معاشرے کے متوسط اور خوش حال طبقوں کی طرف رجوع کیااور ان سے کہا کہ آپ اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کی بجائے ہمارے پاس بطور امانت رکھوا دیں ہم آپ کو اس پرسود ادا کریں گے۔اسی طرح سنارے کم شرح سود پر لوگوں سے ان کا سونا وغیرہ لے لیتے تھے اور زیادہ شرح سود پر دوسرے لوگوں کو دے کر اپنا منافع درمیان میں رکھ لیتے تھے۔بہت سارے لوگوں نے سوچا کہ کاروبار میں نقصان کا اندیشہ بھی ہے ۔وقت بھی لگے گااور محنت بھی کرنا پڑے گی ۔حساب کتاب بھی رکھناہوگااورنفع میں اتار چڑھاؤ بھی رہتا ہے۔ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے لوگوں میں اس طرف رجحان بڑھنے لگا کہ اپنا کاروبار شروع کرنے کی بجائے اپنا سونا وغیرہ سناروں کے پاس رکھوا کر ایک متعین شرح سود حاصل کی جائے کہ جس میں اصل زر بھی محفوظ رہے گا اور محنت بھی نہ کرنا پڑے گی۔ وقت بھی بچ جائے گا اور نقصان کے اندیشوں سے بھی بچے رہیں گے۔اس طرح معاشرے کے تقریباً 90 فی صد سرمایے پر ان سناروں کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ تیسرا مرحلہ تیسرے مرحلے میں سناروں نے اپنے کاروبار کو اجتماعی شکل دینا شروع کر دی۔پہلے جوکام وہ انفرادی سطح پر کرتے تھے اب انہوں نے وہ گروپ کی شکل میں کر نا شروع کر دیا۔ اس مرحلے میں جدید بینک وجود میں آنا شروع ہو گئے۔ بینک اگرچہ چھوٹے بڑے بہت سے کام کرتا ہے لیکن اس کا اصل کام آج بھی یہی ہے کہ کم شرح سود پر لوگوں سے ان کی رقوم بطور امانت لینا اور زیادہ شرح سود پر مختلف افراد، کمپنیوں اور اداروں کو قرضے جاری کرنا۔بینک کے ادارے میں دو طرح کا سرمایہ ہوتاہے، ایک ان افراد کا سرمایہ کہ جو مل کر ایک بینک بناتے ہیں اور دوسرا ان کھاتے داروں کا سرمایہ جوبینک میں اپنی رقوم بطور امانت رکھواتے ہیں۔بینک کا اصل سرمایہ دوسری قسم کا ہوتا ہے جو کل سرمایے کا تقریباً 85 سے 90 فی صد ہوتا ہے۔ [1]
[1] مودودی، ابو الاعلی،سید، سود : ص129۔141،اسلامک پبلیکیشنز،لاہور، مئی 1987ء