کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 129
فہد العودہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے اس طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شخ الغزالی رحمہ اللہ کی آخری ترین تصنیفات میں سے السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ وأہل الحدیث کو بطور خاص ذکر کیا جاتاہے، لیکن اس کتاب میں موصوف نے کہیں بھی اہل فقہ اور اہل حدیث سے اپنی مراد کو واضح نہیں کیا۔ [1]
شیخ العودہ مزید لکھتے ہیں:
’’شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی دیگرکتب کے مطالعہ سے یہ غموض مزید پیچیدہ ہوجاتاہے کیونکہ بعض مقامات پر اہل الحدیث سے ان کی مراد حدیث کی خدمت میں مصروف لوگ ہوتے ہیں، جبکہ بعض مقامات پر اہل الحدیث سے ان کی مراد آئمہ ثلاثہ اِمام شافعی،اِمام مالک اوراِمام احمد رحمہم اللہ ہوتے ہیں۔اس عنوان سے ان کی کیا مراد ہے، کوئی نہیں جانتا، کیونکہ بسا اوقات شیخ الغزالی رحمہ اللہ محدثین کرام رحمہم اللہ کی تائید کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، جیساکہ نکاح کرنے میں باکرہ پر جبر کرنے کا مسئلہ ہے، اوربسااوقات اہل الرائے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ عورت کااپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کرنے کا مسئلہ ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ اہل حدیث اور اہل فقہ سے شیخ الغزالی کی مراد کیا ہے؟کیونکہ اس مسئلہ میں بذات خود ان کی اپنی رائے متردد ہے۔ ‘‘[2]
شیخ العودہ رحمہ اللہ نے جن دو روایات کی طرف مذکورہ عبارت میں اشارہ کیا ہے، ذیل میں ہم انہی مسائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ محمد الغزالی رحمہ اللہ کو اہل فقہ یا اہل حدیث میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی ذاتی دلچسپی نہیں، بلکہ اصل بات ان کے نزدیک اپنے نظریات کی تائید تلاش کرنا ہے۔
بیوہ عورت سے نکاح کے مسئلہ میں شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف
شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ محدثین کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، جبکہ بیوہ اپنے رشتہ کے انتخاب میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد شیخ لکھتے ہیں کہ’’ اس حدیث کی موجودگی کے باوجود شوافع اور حنابلہ کے نزدیک باپ اپنی کنواری بیٹی پر نکاح کرنے کے سلسلے میں جبر کرسکتا ہے، جو سراسر عورت کی توہین اور اس کی شخصیت کی تحقیر ہے۔‘‘ [3]
[1] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص 6۔7
[2] أيضاً: ص170
[3] السنة النبویة: ص32۔33