کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 128
مشاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار درست نہیں۔ فلسفہ ٔ مغرب سے مرعوب متعدد دیندار لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے امور غیبیہ سے متعلق مسائل میں شکوک و شبہات اور تردد کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی طرف سے ان کی من گھڑت تاویل کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ حساب و کتاب، جنت و جہنم اور عذاب قبر کی بھی تاویل کرتے ہیں اور باطنیہ و فلاسفہ کی مانند ان امور غیبیہ کو اوہام و خرافات قرار دیتے ہیں۔ اس جیسے امور میں تاویل کا دروازہ کھولنا ارتداد کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ باقی رہا شیخ موصوف کا یہ کہنا کہ’’ جاپانیوں، روسیوں اور امریکیوںوغیرہ کو جن کیوں نہیں لگتے‘‘،درست نہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر بھی جن حملہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں کثیر تعداد میں دماغی اور نفسیاتی مریض ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ چونکہ وہ لوگ جنوں کے وجود کے سرے سے ہی منکر ہیں، اس لئے وہ جنوں کے حملوں کے بالاولیٰ منکر ہیں۔ وہ جنوں کے لمس کو مختلف دماغی اور نفسیانی امراض جیسے تشنج وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ امر واقع میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے، جس سے معلوم ہو کہ ان لوگوں پر جن حملہ نہیں کرتے ہیں۔ شیخ سلمان بن فہد العودہ اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ ایک دفعہ ہم امریکہ گئے اور وہاں پر موجود پڑھنے والے سعودی طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے بتایا کہ یہاں ہمارے پاس ایک شخص کو جن لگ گئے تھے، جو اس مریض شخص کی زبان سے کلام بھی کرتے تھے۔ لہٰذا اس شخص کا علاج کرانے کے لیے اس کو امریکہ سے سعودی عرب منتقل کردیا گیا ہے، تاکہ وہاں پر مشائخ و علماء وغیرہ سے اس کاعلاج کروایاجاسکے۔‘‘ [1] شیخ غزالی رحمہ اللہ کے افکار کا ایک اور زاویے سے جائزہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے بارے میں شیخ سلمان بن فہد العودہ کا یہ تبصرہ گذر چکا ہے کہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ کی کتا ب ’’السنة النبویة بین أهل الفقه وأهل الحدیث‘‘ میں ان کی مراد اہل فقہ یا اہل الحدیث سے کیا ہے؟ اس بارے میں ان کی مختلف عبارات میں خود تضاد اور تناقض ہے۔ ان کی عام کتب اور کتاب ہذا کے تجزیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کی فکر سے کسی محترم فقیہ یا مکرم محدث کا اختلاف ہوجائے تو وہ اسے بے بصیرتی کےمعنی میں لے کر’ اہل حدیث‘ کے نام سے موسوم کردیتے ہیں،اور اگر ان کی فکر کی کسی بدعتی یا شاذ رائے کے حامل شخص کے قول سے تائید ہوتی ہو تو اسے وہ ’اہل فقہ‘ کہہ کر اہل تدبر میں شمار کرتے ہیں، خواہ اس فکر کے خلاف (دونوں صورتوں میں) تمام فقہائے کرام کا اجماع ہی کیوں نہ ہو۔ گویا موصوف کا کوئی مذہب نہیں، نہ وہ محدثین عظام رحمہم اللہ کے مؤید ہیں اور نہ ہی فقہاے کرام رحمہم اللہ کے زمرے میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ سلمان بن
[1] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص127