کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 127
حصہ ننگا ہوگیا تو عورت کہنے لگی: یہ حسن البناء ہیں، جو مسلمانوں کے اِمام ہیں، لیکن عورتوں کا ستر دیکھ رہے ہیں،حالانکہ وہ شیخ حسن البناء رحمہ اللہ کو بالکل نہیں جانتی تھی۔ شیخ نے اپنا چہرہ پھیر لیااور اپنا دم جاری رکھا۔ جب عورت کی پنڈلی ننگی ہوتی، شیخ اس کو ڈھانپ دینے کا حکم دیتے اور مسلسل قرآنی آیات پڑھتے جاتے۔ حتیٰ کہ اس عورت سے جن بھاگ نکلا اور وہ صحیح سلامت ہوکر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرت و استعجاب سے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کہنے لگی کہ مجھے یہاں کون لایا ہے؟ اور میرے اردگرد یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ ‘‘[1] مذکورہ واقعہ تو فقط ایک مثال ہے، ورنہ اس معاملہ پر عینی شاہدین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ مسئلہ بیان کا محتاج ہی نہیں ہے۔ تعجب اس امر پر ہے کہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ جو ظاہر قرآن کے خلاف آنے کی بنیاد پرصحیح احادیث کورد کردیتے ہیں،انہوں نے قرآن کے اس ظاہر سے نظر پھیرلی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ [2] ’’ مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو۔‘‘ کیا یہ آیت جنوں کے وجود اور اس کے انسانی جسم میں داخل ہونے پر نص صریح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے، کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّم.)) [3] ’’شیطان انسان کی رگوں میں ایسا دوڑتا ہے جسے خون۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہڈیاں ، گوبر اور لید وغیرہ جنوں کی خوراک ہے۔[4] ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جن کو پکڑ لیا، لیکن بعد میں حضرت سلیمان کی دعا کی وجہ سے چھوڑ دیا اور فرمایا: ((لولا دعوة أخي سلیمان لاصبح موثقا یلعب به صبیان أهل المدینة.)) [5] ’’اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو صبح تک بندھا رہتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور ہے کہ شیطان انسانی شکل میں چور بن کر روز آتا اور مال غنیمت چوری کرتا تھا۔ [6] جن اور شیطان کے وجود کا تعلق امور غیبیہ سے ہے، لہٰذا جنوں کا
[1] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص126-127 [2] سورة البقرة: 2: 275 [3] صحیح البخاري، كتاب الاعتكاف، باب هل يدرأ المعتكف عن نفسه: 2039 [4] صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءة على الجن: 450 [5] ابن حبان، محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، باب ذكر الإخبار عن إباحة دعاء المرء في صلاته: 1320، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 1988م [6] صحیح بخاری، كتاب فضائل القرآن، باب فضل سورة البقرة: 5010