کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 121
مذکورہ حدیث پر شیخ رحمہ اللہ کے’ ارشادات‘کا جائزہ مذکورہ حدیث کواِمام مسلم رحمہ اللہ[1] اور احمد رحمہ اللہ[2] (متوفیٰ 241ھ) وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751ھ)اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ’’لیس في إسناده من یتعلق علیه.‘‘ [3] ’’اس حدیث کی اِسناد میں کوئی راوی بھی ایسا نہیں ہے جس پر جرح کی جائے۔‘‘ اس حدیث پر وارد اشکال کا جواب دیتے ہوئے اِمام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقتاً اس کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ آپ کا مقصود اس کوڈرانا دھمکانا تھا، تاکہ وہ دوبارہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس نہ آئے۔ جس طرح حضرت سلیمان نے دو عورتوں کے درمیان بچے کے جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ چھری لاؤ! میں اس بچے کو آدھا آدھا کردیتا ہوں۔ اس موقع پر حضرت سلیمان نے حقیقت کلام کو مراد نہیں لیا تھا۔‘‘[4] شیخ سلمان بن فہد العودہ رحمہ اللہ اس حدیث پر وارد شدہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کا نہایت واضح جواب یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس گستاخی اور جرأت پر اس کو تعزیراً قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور تعزیراً قتل کرنا مصلحت کے تحت ہوتا ہے،حد کا نفاذ نہیں۔ کیونکہ اس شخص کا ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے جانے کا تذکرہ لوگوں میں عام ہوچکا تھا اور وہی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے متعلق بری کلام کا سبب بنا تھا۔ جب حقیقت حال واضح ہوگئی کہ وہ شخص مقطوع الذکرہے، تو معاملہ ختم ہوگیا ہے۔‘‘[5]
[1] النيسابوري، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، كتاب التوبة، باب براءة حرم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الريبة: 2771، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1998م [2] ابن حنبل، أبو عبد اللّٰه أحمد بن محمد، مسند أحمد، مسند أنس بن مالك رضي اللّٰه عنه: 21/ 405، مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى، 2001م [3] ابن قيم الجوزية، شمس الدين، زادالمعاد في هدي خير العباد، فصل في حكمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقتل من اتهم بأم ولده فلما ظهرات براءته امسلك عنه: 5/16، مؤسسة الرسالة، مكتبة المنار الإسلامية، الكويت، الطبعة السابعة والعشرون، 1994م [4] زادالمعاد: 5/16 [5] حوار هادیٔ مع محمد الغزالي: ص98