کتاب: رُشد شمارہ 3 - صفحہ 12
کا آغاز ہوا تھا تو اس کو چلانے والے حضرات کھاتے داروں کے حساب و کتاب کے لیے ایک میز کو اپنے سامنے رکھتے تھے کہ جس پر سبز رنگ کا کپڑا پڑا ہوتا تھا ‘اسی سے لفظ بینک وجود میں آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلا ماڈرن بینک اٹلی (جینوا) میں 1407ء میں وجود میں آیا جس کا نام ’بینک آف سینٹ جارج ‘ تھا۔[1] ایک جدید بینک کی عام طور پر یہ تعریف کی جاتی ہے: ’’بینک قرضوں کا کاروبار کرتا ہے۔عوام سے امانتیں وصول کرتا ہے اور ضرورت مند افراد کو قرضے فراہم کرتا ہے، بینک کے جاری کردہ زرِ اعتبار (مال ِ حکمی) کو عام لوگ بلا حیل و حجت قبول کر لیتے ہیں ۔اس لیے بینک زر کی تخلیق بھی کرتا ہے۔‘‘ [2] زرِ اعتبار سے مرادوہ زر(مال) ہے جو حقیقی نہ ہو مثلاً کرنسی نوٹ،بانڈز‘ بینک کے چیکس(cheques) وغیرہ۔اس کے بالمقابل حقیقی زر سے مراد وہ سونا ہے جو کرنسی نوٹ ، بانڈز یا چیکس وغیرہ کے پیچھے موجود ہوتا ہے اور یہ ایک طرح کی اس سونے کی رسیدوں کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں جنہیں لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سہولت کے پہلو سے جاری کیا جاتاہے۔پہلے پہل کرنسی نوٹ اس وقت جاری کیے جاتے تھے جبکہ ان کے پیچھے ان کی مالیت کا سونا موجود ہوتا تھا لیکن اب یہ شرط اٹھالی گئی ہے اور کوئی بھی ملک سونے کی موجودگی کے بغیر بھی کرنسی نوٹ چھاپ سکتا ہے۔ جدید بینکاری کی تاریخ جدید بینکنگ کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس بارے میں مولانا مودودی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1979م) نے اپنی کتاب’سود‘ میں عمدہ بحث کی ہے۔مولانا نے جدید بینکنگ کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے جس کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں یہاں نقل کر رہے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ مغربی ممالک میں شروع شروع میں جبکہ ابھی تک کاغذی نوٹ ایجاد نہیں ہوئے تھے، لوگ اپنی قیمتی امانتیں ، سو نااور چاندی وغیرہ سناروں کے پاس بطور امانت رکھوا دیتے تھے۔سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی ایک رسید جاری کر دیتا تھا جس میں یہ تصریح ہوتی کہ فلاں شخص کااتنا سونا میرے پاس بطور امانت محفوظ ہے۔آہستہ آہستہ یہ امانتی رسیدیں خرید و فروخت اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہونے لگیں اور لوگ ان رسیدوں پر اعتماد کرنے لگے جس کی وجہ سے ایک شخص کو سنار کے پاس سے سونا نکلوانے کی ضرورت بہت کم پڑتی
[1] Unknown, Bank, Retrieved March 03,2012, from http://en.wiki pedia.org/wiki/Bank [2] عبد الحمید ڈار، پروفیسر ، محمد عظمت، پروفیسر، محمد اکرم میاں، پروفیسر، اسلامی معاشیات : ص305،علمی کتاب خانہ، لاہور