کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 97
کہ اپنے مال میں تصرف کا حق صرف بیٹے کوحاصل ہے کہ وہ اپنی لونڈی سے مباشرت کرے یا اپنا غلام آزاد کر دے۔ بچپن میں والد نگران ہونے کی حیثیت سے بیٹے کے مال میں تصرف کرتا رہتا ہے مگر بیٹے کی بلوغت کے بعد یہ سبب زائل ہو جاتا ہے۔ اب وہ خود اپنے مال میں تصرف کا زیادہ حقدار ہے۔
اگر بیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہے تو باپ جب اپنے بیٹے کو ہبہ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ خود اپنی ذات کو ہی ہبہ کرتا ہے حالانکہ یہ ایک فضول بات ہو گی جس کا اہل علم میں کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹے کا مال اسی کی ملکیت ہے باپ کی ملکیت نہیں ہے ۔
دوسرا قول
باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال سے جب چاہے، جتنا چاہے، لے سكتا ہے ۔ خواہ باپ کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو بیٹا چھوٹا ہو یا بڑا ، بیٹی ہو یا بیٹا وہ مال دینے پر خوش ہو یا ناخوش ، بیٹے کو باپ کے مال کا علم ہویا نہ ہو۔ یہ قول صحابہ میں سے عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود، جابر بن عبد اللہ، انس بن مالک، ابن عباس ، علی بن ابی طالب اور سیدہ عائشہ صدیقہ کا ہے ۔
فقہاے تابعین میں سے مسروق بن اجدع، سعید بن مسیب(متوفیٰ94ھ)، ایک روایت کے مطابق ابراہیم نخعی، عامر شعبی (متوفیٰ 105ھ) ، مجاہد ، حسن بصری(متوفیٰ 110ھ) ، حکم بن عتبہ اور قتادہ بن دعامہ سدوسی(متوفیٰ 118ھ) رحمہم اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے ۔
فقہا تابعین میں سے یہ قول ابن ابی لیلیٰ، محمدبن عبد الرحمن کا ہے اور متاخرین میں سے امام صنعانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1182ھ) نے حدیث ((أنت و مالك لابیك))سے استدلال کرتے ہوئے اسی قول کی تائید کی ہے ۔
قرآن مجید سے دلائل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ ...﴾[1]
’’ کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا یا لنگڑا یا مریض ( کسی کے گھر سے کھائے )۔ اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں پر دس (10) قسم کے لوگ بیان کیے ہیں جن کے گھروں سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان دس (10) میں اولاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جیسا کہ
[1] قرآن کے خلاف جواز نہ ڈھونڈو : 15
[2] جدید ذہن کے شبہات اور اسلام: 82
[3] طاہرہ کے نام خطوط: ص 77