کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 95
امام قرطبی رحمہ اللہ (متوفیٰ671ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ غنی شخص پر واجب ہے کہ وہ اپے محتاج والدین پر ان کے کھانے ، پینے ،اوڑھنے وغیرہ پر اتنا خرچ کرے جتنا اپنے اوپر خرچ کرتاہے۔‘‘ [1]
مذکورہ آیت مال پر بیٹے کی ملکیت کو ثابت کرتی ہے اور والدین کو اللہ تعالیٰ نے مصارفِ انفاق میں ذکر کیا ہے لہذا باپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنائے ۔اگر بیٹے کا مال باپ کا ہی ہوتا تو والدین کا نفقہ ثابت نہ ہوتا اور فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضرورت مند والدین کا نفقہ بیٹے کے ذمہ واجب ہے۔ [2]
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ لِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ ...﴾ [3]
’’اگر اس کی اولاد ہو تو اس کے ترکے میں سے ماں باپ ہرایک کے لئے چھٹا حصہ ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ204ھ) فرماتے ہیں:
’’ جب اللہ تعالیٰ نے باپ کو بیٹے کی میراث میں سے دیگر ورثاء کی مانند ایک مقرر حصہ دیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹا بلاشرکت غیر اپنے مال کا خود مالک ہے ۔‘‘ [4]
امام طحاوی رحمہ اللہ (متوفیٰ321ھ) فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی موت پر ماں کومقرر حصہ دیا ہے اور یہ امر محال ہے کہ بیٹے کی موت پر ماں کو بیٹے کے مال کی بجائے، باپ کے مال میں سے مقرر حصہ دیا جائے۔‘‘ [5]
امام ابن حزم رحمہ اللہ ( متوفیٰ 456ھ) فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالی نے میت کے مال میں والدین ، خاوند ، بیوی ، بیٹے اور بیٹیوں سمیت تمام ورثاء کے حصے مقرر کر دیئے ہیں اگر بیٹے کا مال والد کی ملکیت ہوتا تو مذکورہ تمام ورثاء محروم ہو جاتے کیو نکہ وہ ایک زندہ انسان والد کا مال ہوتا۔‘‘ [6]
حدیث سے دلائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ،كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي
[1] مطالب الفرقان :3/368