کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 9
جواب دیا گیا : جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پھر اس کی تجارت کرنا صحیح نہیں۔ [1]
پس اگر خشک ہوکر تازہ کھجوروں کا حکم ہونا ممانعت کی علت نہ ہوتا تو اس کے بارے میں سوال کرنا بے کار ہوتا۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی سوال کے جواب میں اس کی مثال کی طرف متوجہ کیا جائے جیساکہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب خثعم قبیلہ کی عورت نے والدین کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے والد پر کوئی قرض ہوتا اور تم اسے ادا کردیتیں تو کیا تیری ادائیگی اسے فائدہ پہنچاتی؟ اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَدَيْنُ الله أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى ))[2]
’’تو اللہ تعالیٰ کا قرض اس با ت کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔‘‘
تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں پر قرض ہی علت تھا۔ [3] بعض دیگر شافعی اصولیین ایماء کی ایک دوسرے اعتبار سے چھ اقسام بیان کرتے ہیں، جو کہ علت سے متعلقہ ہیں:
۱۔ حکم کا ترتب فاء کے ذریعے علت پر ہوگا۔
۲۔ واقعہ کے ذکر کے بعد حکم کا ذکر ہوگا ۔
۳۔ حکم کا وصف سے اقتران ہوگا۔
۴۔ شارع ایسے دو امروں کے مابین تفریق کرتا ہے کہ جن میں صفت کے ذریعے حکم لگایا گیا ہے۔
۵۔ ایسی چیز کا دورانِ کلام ذکر کرنا جو خود بخود بتائے کہ اس حکم کی یہ علت ہے۔
۶۔ شارع خود وصف مناسب کو حکم کے ساتھ ذکر کردے۔ [4]
مفہوم موافق
ازروئے لغت: ’مفہوم‘ ’فہم‘ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ [5]
اور اصطلاحی اعتبار سے اس کی تعریف یہ ہے: "ما دل عليه اللفظ لا في محل النطق" [6]
[1] Ibid, p. 7
[2] Ibid, p. 20
[3] Ibid, p. 16
[4] Ibid, p. 16