کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 85
شوہر کو اپنے سربراہانہ اختیارات کو استعمال کرنے یعنی وعظ و نصیحت، خواب گاہوں سے علیحدگی اور مارپیٹ سے کام لینے کی نوبت ہی نہ آئے، لیکن مرد کی سربراہی کا انکار ممکن نہیں۔ "قٰنِتٰتٌ" کا ایک اور مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے: ’’پہلا اہم نقطہ یہ ہے کہ لفظ "قانتات" اچھی عورت کے لیے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ فرمانبردار عورت اور اگر ہم قرآن کے سیاق وسباق میں ملاحظہ کریں تو یہ لفظ عورت اور مرد کے لیے یکساں طور پر استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ [1] نشوز طبقہ حقوق نسواں کا کہنا ہے کہ "نشوز" کا لفظ قرآن میں مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس لیے اس آیت میں "نشوز" کو صرف عورت کے لیے خاص کرنا زیادتی ہے اور خصوصا اس کو خاوند کی نافرمانی کے لیے استعمال کرنا زیادتی پر زیادتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اس کا مطلب خاوند کی نافرمانی نکالنا انتہائی غلط ہے بلکہ اس کا اصل مقصد شادی شدہ جوڑے میں چپقلش سے لینا زیادہ درست ہو گا۔‘‘ [2] باہمی اطاعت کی طرح باہمی نافرمانی بھی ثابت ہو گئی اور مرد وزن برابر ہو گئے،لیکن پھر بات بن کر بھی بنی نہیں کیونکہ"نشوزهن" کی ضمیر جمع مونث کی ضمیر ہے جو عورتوں کی سرکشی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ سچی بات ہے کہ یہ قرآن کی تشریح کے ساتھ مذاق ہے۔ آیت زیر بحث میں،فکر جدید کی تعبیرنونے ایک اور سوال یہ اٹھایا ہے کہ عورتوں کو وعظ و نصیحت کرنے ، انہیں ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دینے اور ان کی مارپیٹ کے احکام کا مخاطب کون ہے ؟فکر جدید کا خیال ہے: ’’ یہاں خطاب میاں بیوی کو نہیں بلکہ جماعت کو ہے خود آیت مذکورہ بالا میں بات میاں بیوی کی نہیں ہورہی ہے بلکہ نوعِ انسان کی دو اصناف یعنی صنفِ رجال اور صنف نساء کی بات ہو رہی ہے قرآن نے اس آیت میں دونوں اصناف کے فرائض بتائے ہیں...گھر کا بڑا بزرگ، خاندان کا سربراہ ، حاکم مجاز ، باپ ، بھائی سب اس خطاب میں آجاتے ہیں کہ وہ اوّل عورت کو نصیحت کریں ، اسے اس کے سونے کے کمرے میں تنہاچھوڑ دیں ، ان باتوں سے اصلاح نہ ہو تو جسمانی سزا دیں جو اذیت رساں نہ ہو۔ ‘‘ [3] فکر جدید کے ایک اور مفکر فرماتے ہیں کہ ’’ یہاں گفتگو میاں بیوی کے متعلق نہیں ہو رہی ہے۔ عام مردوں اور عورتوں کے فرائض سے متعلق ہو رہی
[1] وحید الدین خان، مولانا ، عورت معمار انسانیت:26 دار التذکیر، لاہور، 2006ء [2] Amina Wadud ,Quran & Women, USA: Oxford university, Perss, 1999, p.20,29