کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 84
مراد عورتوں کے فرمانبردار مرد لیے ہیں؟ اگر نہیں تو عورتیں ہی کیوں مردوں کی فرماں بردار ہوں۔ [1]
اپنی اس کوشش میں وہ آیت کے سیاق وسباق سے صرف نظر کرتے ہیں جو عورتوں پر مردوں کی قوامیت کے عنوان سے شروع ہو کر مردوں کی عورتوں پر سربراہی پر ختم ہوتاہے۔ تعبیر نو کے اکثر حاملین نے" قٰنِتٰتٌ"کے یہی معانی لیے ہیں اور مردوں کی فرمانبرداری کے تصور کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ تعبیرہی ان کے مزعومہ مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ [2] تعبیر نو کے حامل اپنی رائے میں پھر ترمیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر "قنتٰت" سے مراد شوہر کی فرماں بردار بیوی بھی لی جائے تو اس سے مراد خاندان کے مشترک معاملات ہیں یعنی وہ جن پر گھر کی تنظیم کا دارو مدار ہے۔ ان میں آخری فیصلے کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ عورت کلی طور پر مرد کی فرمانبردار بن کر رہے۔ عورت اپنے ذاتی معاملات میں بالکل آزاد ہے۔ اس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا۔ مثلاً اسے کوئی خاص کپڑا پہننے یا کوئی خاص کھانا پکانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے مال پر دوسرے کا کوئی حق نہیں۔ اسے کوئی پیشہ اختیار کرنے یا خدمت خلق کا کوئی کام کرنے سے نہیں روکا جا سکتا گویا وہ تمام امور جو عرف میں کسی فرد کے ذاتی معاملات کہلاتے ہیں اُن میں عورت کسی مرد کے تابع نہیں، وہ اپنے ذاتی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔‘‘ [3]
ایک دوسرے مفکر بھی عورت کی فرماں برداری سے دست کش ہونے کے بعد کچھ کچھ اُسے مانتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں:
’’ ہم اس کے منکر نہیں کہ عورتوں کو اپنے شوہروں کا مطیع و فرمابردار ہونا چاہیے لیکن اطاعت اطاعت میں فرق ہے۔ ایک اطاعت محکومانہ اور غلامانہ ہوتی ہے جو ایک جابر اور مطلق العنان حاکم کی کی جاتی ہے۔ اور ایک اطاعت رضا کارانہ اور مساویانہ ہوتی ہے۔ جو ایک شفیق و محب صادق کی کی جاتی ہے۔ ہم غلامانہ اور محکومانہ اطاعت کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ [4]
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیوی کی اطاعت محبوبانہ ہونی چاہیے تو پھر شوہر کو بھی بیوی کی اطاعت کرنی چاہیے۔ آخر وہ بھی تو اس سے محبت کا دعویدار ہے۔محبوبانہ اطاعت سے یہ فکر نو مساوات مرد وزن کا رنگ کشید کرتی ہے۔یقیناً عائلی زندگی کا حسن و کمال اسی بات میں ہے کہ گھر کی فضا میں بیوی شوہر کی اطاعت رضاکارانہ ، محبانہ ، مشفقانہ ،مساویانہ اور خوش دلانہ انداز سے کرے اور وہ شوہر کی فرمانبرداری اس والہانہ اُلفت سے کرے کہ
[1] سورة النساء:4 :1
[2] سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور :2/155، مکتبہ دار المعرفۃ، بیروت، لبنان ؛ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل القرشی، تفسیرالقرآن العظیم:1/743، مؤسسۃ الریان، الریاض، طبع اول، 1988ء؛ کیلانی، عبد الرحمن، تیسیرالقرآن:1/344 ،مکتبہ السلام، لاہور، طبع دوم، 1428ھ
[3] پرویز، غلام احمد، طاہرہ کے نام خطوط : 30،ادارہ طلوع اسلام، لاہور، طبع چہارم، 1979ء
[4] کیلانی، عبد الرحمن، آئینہ پرویز یت :ص 194، مکتبہ السلام، لاہور، طبع سوم، 2001ء