کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 83
اسرائیل کا زوال بھی مردوں کی موت اور عورتوں کی بقا پر مبنی تھا۔ [1] آج مسلمانوں کا زوال اگر مردوں کی موت نہیں تو مردانگی کی موت پر منحصر ہے۔مسلمانوں میں مردانہ جوہر زوال پذیر ہے۔اگر آج بھی مسلمان اپنے میں مردانگی کو فروغ دیں اور دنیامیں غالب ہو کر دکھائیں تو فضیلتوں میں عدم توازن حقیقی اور اصلی توازن میں بدل جائے اور اسلامی قوانین کی ابدیت مسلمانوں کے عمل سے ثابت ہو جائے۔ عورت کی فرمانبرداری اب اس آیت کے دوسرے حصہ کی طرف آیئے جو یہ ہے : ﴿ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ﴾ [2] ’’ پس جو نیک عورتیں ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں اور مردوں کی غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت میں اپنے مال و آبرو کی خبرداری کرتی ہیں۔ ‘‘ تعبیر نو کے حامل مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ لفظ ﴿ فَالصّٰلِحٰتُ ﴾اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مردوں کے مالوں سے عورتوں کی ضروریات زندگی پوری ہوں گی اور ان کی صلاحیتیں نشوونما پائیں گی۔ اور قٰنِتٰتٌ کے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اس مصرف میں لائیں جس کے لیے وہ خاص صلاحیتیں پیدا کی گئی ہیں۔ [3] (قٰنِتٰتٌ) کے یہ معنی بھی معروف معنی کے خلاف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ﴿ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ﴾ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعنی جب اللہ کے قانون نے جس طرح عورتوں کی حفاظت (پرورش) کا سامان بہم پہنچا دیا کہ وہ اس چیز کی حفاظت کر سکیں جو پوشیدہ طور پر ان کے سپرد کی گئی ہے( یعنی جنین کی حفاظت ) [4]ان کے نزدیک آیت کا درست اور صحیح مفہوم یہی ہے نہ کہ کوئی اور۔ مزید "قٰنِتٰتٌ "کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہاں اس سے شوہر کی فرمانبرداری مراد لینا غلط ہے۔ اس سے مراد اللہ کی فرمانبردار عورتیں ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر "قانتین" کا لفظ بھی "قانتات" کے ساتھ آیا ہے چونکہ وہاں مراد اللہ کے فرمانبردار مرد اور عورت ہیں لہٰذا اس آیت میں بھی (قٰنِتٰتٌ) سے مراد اللہ کی فرمانبردار عورت ہی لی جانی چاہیے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ کیا کسی نے قانتین سے
[1] حیفا جواد، مسلم تحریک نسواں ، ترجمہ خورشید ندیم:ص18، معاصر اسلامی فکر۔ ادارہ برائے تعلیم وتحقیق، اسلام آباد، 2000ء [2] وارث میر، پروفیسر، کیا عورت آدھی ہے: ص 111؛ نگارشات لاہور، طبع دوم، 1989ء