کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 81
معاشی اکتساب کی توفیق مانگیں۔خدا خوب جانتا ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہیں۔‘‘ [1] در حقیقت عورت کو معاش کی راہ پر ڈالنا ہی طبقہ حقوق نسواں کا اصل ہدف ہے۔اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر طرح کے مفہوم اخذ کر لیتے ہیں،ورنہ ﴿ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾ کے الفاظ صاف طور پر عورت کو معاش کی ذمہ داری سے آزاد کرتے ہیں۔اس آیت سے عورت کے معاش کے لیے استدلال نہایت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ [2] "قوام" کی بحث کرتے ہوئی فکر جدید کے ایک اور مفسر "قوام" کا ترجمہ ’حاکم ‘ کا ردکرتے ہوئے اس کا ترجمہ ’سربراہ‘ اور ’ کارفرما‘ کرتے ہیں لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ سربراہ اور کارفرما سے بھی مرد کی برتری باقی رہے گی تو پھر وہ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے مرد کو سربراہ خاندان اور عورت کو سربراہ خانہ بناتے ہیں تاکہ مساوات قائم ہو سکے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’معاشی ذمہ داری چونکہ مرد پر ہے۔ اسی طرح بیرونی معاملات کا سلجھانا بھی اِسی کا فریضہ ہے۔ اسے خاندان کا سربراہ ہونا چاہیے۔ اور عورت گھر کے اندرونی معاملات کی ذمہ دار ہے لہٰذا اُسی کو سربراہ خانہ ہونا چاہیے۔‘‘ [3] مرد کو سربراہ خاندان اور عورت کو سربراہ خانہ بنا دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔اگر گھر میں داخل ہو کر مرد عورت کے تابع ہو چلے اور گھر سے باہر عورت مرد کے تابع چلے تو قوامیت ثابت ہو جائے گی یا مساوات؟ اسی نوعیت اور اسی انداز کو فکر جدید کے اکثر حاملین نے اپنایا ہے جوکہ مرد کی فضیلت کے انکار کے کئی رخ لیے ہوئے ہے ۔ملاحظہ فرمائیے: ’’یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے۔ بلکہ مرد کی فضیلت کا ایک پہلو بیان ہوا ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں۔‘‘ [4] امینہ ودود مرد کی قوامیت پر ایک اور پہلو سے تنقید کرتی ہے کہ مرد کی قوامیت و فضیلت مرد کے عورتوں کے کفیل بننے کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ وجہ باقی نہ رہے تو پھر وہ ہر قسم کی فضیلت کا انکار کرتی ہیں۔ [5] امینہ کا یہ نقطہ قابل غور ہے کیونکہ دورِ جدید کی مغربی تہذیبی یلغار کے نتیجہ میں جہاں عورت معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہے وہاں اُس کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا اور مرد کا اُس پر اپنی فضیلت منواتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے عورت کو مجبور کرنا اللہ کے دیے ہوئے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا ہے۔ حق وہی طلب کر سکتا ہے جو اپنی ذمہ