کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 80
جدید فکر نے خود بھی "قام الرجل المرأة" کے معنی مطالب الفرقان میں ’’ مرد نے عورت کی کفالت کی، اس کی ضروریات کو پورا کیا اور ان کا ذمہ دار ہوا ۔‘‘ کے لیے ہیں۔ [1]گویا اس لفظ میں رزق مہیا کرنے سے زیادہ ذمہ داری اور نگہداشت کا پہلو نکلتا ہے اور یہی بات علما کہتے ہیں۔ کون کس پر افضل ہے اس بات کا جواب اب خود اسی آیت میں ہے : ﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾ کے ساتھ ہی ’بِمَا ‘آیا ہے جو ایک تو اس کی وجہ بیان کر رہا ہے اور دوسرے یہ وضاحت کر رہا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کی دوسری وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ مرد عورت کے ذریعہ معاش کا وسیلہ ہے لیکن فکر نو کا یہ کہنا ہے کہ ’’یہ معیار تمہارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اللہ نے ایسا نہیں کہا۔‘‘ [2] پھر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں : ’’ اگر یہ اُصول صحیح مان لیاجائے کہ کمانے والوں کو کھانے والوں پر فضیلت ہوتی ہے تو بڑے بڑے مدبرین ، مفکرین اور ایجادات کرنے والوں پر کاشتکاروں کو ہمیشہ فضیلت ہونی چاہیئے اور میدان جنگ میں لڑنے والوں کا درجہ مزدوروں سے بہت نیچا ہونا چاہیے کیونکہ، مفکر ، مدبر اور سپاہی اناج پیدا نہیں کرتے۔ ‘‘ [3] معمولی غور وفکر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ایسے نہیں جیساکہ فکر جدید نے سمجھا ہے،کیونکہ کاشتکار زرنقد وصول کر کے اپنا غلہ بیچ دیتا ہے۔ جب اس نے پورا عوض لے لیا تو اب فضیلت کی کیا بات باقی رہ گئی اور یہی حال مزدور کا ہے۔ لیکن خاوند اخراجات کے عوض بیوی سے کیا لیتا ہے ؟ اولاد کے حصول کی خواہش مرد و عورت دونوں میں کم وبیش ایک جیسی ہوتی ہے۔ اب مرد کا عورت پر خرچ کرنا فضیلت نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اس فضیلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ عورت اگرچہ مالدار ہو اور خاوند غریب ہو تب بھی اخراجات کی ذمہ داریاں مرد ہی کے ذمہ رہیں گی الایہ کہ عورت اپنی خوشی اور رضامندی سے کچھ خرچ کرے اور یہ اس کا احسان ہوگا۔ آیت میں وارد ﴿ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾ کے الفاظ سیدھا سیدھا مرد کو عورت کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ مرد اپنے مال عورتوں پر خرچ کریں کہ یہی فطرت ہے ،لیکن اگر تعبیر نو کے حامی بھی اس جملے سے یہی مطلب اخذ کریں تو انہیں عورت کو مرد کا دست نگر ماننا پڑے گا جو ان کے مساوات مرد وزن کے نظریہ سے متصادم ہے لہٰذا جدید ذہن کے حاملین عورت کو معاش کی ترغیب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ بعض باتوں میں مردوں کو برتری حاصل ہے اور بعض میں عورتوں کو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں اپنے آپ کو اپاہج بنا کر مردوں کی کمائی کو تکتی رہیں اور خود کچھ نہ کریں۔ انہیں چاہیے کہ خدا سے زیادہ سے زیادہ