کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 8
ہو، جیسا کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں موجود ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حاجی کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا جس کو اس کی اونٹنی نے گرا کر مار ڈالا تھا۔ فرمایا:
((كَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ... فَإِنَّ الله يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي)) [1]
’’اس کو انہی دو ( احرام والے)کپڑوں میں کفن دے دو...کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روزاس حال میں اٹھائیں گے کہ یہ تلبیہ پڑھ رہا ہوگا۔‘‘
یا پھر فاء حکم پر داخل ہو او رعلت اس سے پہلے موجود ہو ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَهُمَا ﴾ [2]
’’چوری کرنے والے مرد و عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘
حکم کا وصف پر شرط اور جزا کے صیغے کے ذریعے مرتب ہونا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرامین ہیں:
﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ [3]
’’جو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیں گے۔‘‘
شارع کسی حادثہ کے بعد جس کے بارے میں سوال کیا جائے ۔ اس پر کوئی حکم لگا دے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی سے کہا: ((أَعْتِقْ رَقَبَةً)) [4] ’’ایک غلام آزاد کرو۔‘‘
تو یہ اس کے اس سوال کا جواب تھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہے۔ پس اس میں اس با ت کی دلیل موجود ہے کہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کفارہ واجب ہونے کی علت ہے۔ حکم کے ساتھ کسی ایسی چیز کو ذکر کرنا کہ اگر اس کے ذریعے تعلیل بیان نہ کی جاتی ہوتو اسکا ذکر کرنا بے فائدہ ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔ یہ کہ سائل کسی واقعہ سے متعلق کسی امر کے بارے میں دریافت کرے اور اس کے بعد اس کا حکم ذکر کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تازہ کھجوروں کی خشک کھجوروں کے بدلے بیع کرنے کا حکم پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟))’’کیا تازہ کھجوریں جب خشک ہوجاتی ہیں تو کم ہوجاتی ہیں؟‘‘
[1] Ibid, p. 47
[2] Ibid, p. 5
[3] Ibid, p. 2
[4] Ibid,p. 7