کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 79
اس پوری آیت میں مردوں کی عورتوں پر بالا دستی کا ذکر ہے اور اس آیت کا ہر حصہ دوسرے کی بھر پور تائید کر رہا ہے۔معروف و معلوم تفسیری فہم پر تنقید کرتے ہوئے مساوات مردوزن کے قائلین لکھتے ہیں: ۱۔ مروّجہ تراجم سب غلط ہیں کیونکہ یہ عربی تفسیروں کا ساہی مفہوم بیان کرتے ہیں۔ ۲۔ عربی کی تفسیریں بھی غلط ہیں کیونکہ وہ روایات کی تائید میں لکھی گئی ہیں۔ ۳۔ اور روایات بھی سب غلط ہیں اگر یہ صحیح ہوتیں تو رسول اللہ کو چاہیے تھا ایک مستند نسخہ اُمت کے حوالےکر جاتے جیسا کہ قرآن حوالے کر گئے تھے۔ لہٰذا اس آیت کا مفہوم یا تراجم یہ تفسیریں خواہ کسی زبان کی ہوں، اور یہ روایات جو پیش کرتی ہیں، سب کچھ یکسر غلط ہے۔ [1] اس کے بعد آیت کی درست تعبیر کرتے ہیں جس کے نکات درج ذیل ہیں : ۱۔ اس آیت میں بات میاں بیوی کی نہیں بلکہ معاشرہ کے عام مردوں اور عام عورتوں کی ہو رہی ہے۔ ۲۔ "قام الرجل على النساء " کے معنی مرد نے عورت کو روزی مہیا کی اور یہ مرد کی ذمہ داری ہے، اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ۳۔ ﴿ فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ کے معنی ایک کی دوسرے پر فضیلت ہے۔ مرد کی عورت پر اور عورت کی مرد پر۔ مرد اپنے دائرہ کارکے لحاظ سے افضل اور عورت اپنے دائرہ کار کے لحاظ سے افضل ہے۔‘‘ [2] گویا فکر جدیدنے آیت مندرجہ بالا کے پہلو نمبر (1) سے مرد کی افضلیت یا حاکمیت کو یوں خارج کر کے طبقہ نسواں کو خوش کر دیا ۔اب سوال یہ ہے: ٭ اگر سب تراجم ، تفسیریں اور روایات غلط ہیں تو مجوزہ تشریح کی صحت کی کیا دلیل ہے؟ ٭ لغوی لحاظ سے بھی قوام کا معنی رزق مہیا کرنے والا نہیں بلکہ قائم رہنے یا رکھنے والا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے : ﴿ كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ ﴾ [3] ’’ ہمیشہ انصاف پر قائم رہو۔ ‘‘ اور امام راغب رحمہ اللہ (502م) ﴿ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾کا معنی حاکم اور محافظ بیان کرتے ہیں۔ [4] اور صاحب ’المنجد ‘ اس کا معنی ’خوبصورت قد والا ‘ معاملہ کا ذمہ دار ‘ کفیل ‘ معاملہ کی ذمہ داری پوری کرنے پر قادر ، امیر بتاتے ہیں۔ [5]
[1] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص8 [2] أیضاً:ص8 [3] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص15 [4] اجتماعی اجتہاد کے تناظر میں تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ:ص6