کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 78
مرد کی حاکمیت طبقہ نسواں کے تاویلی اسلوب کے لیے جتنی مشکل اس آیت کی بدولت پیدا ہوئی اتنی مشکل کسی اور آیت کے سبب نہیں،کیونکہ اس آیت کا کچھ حصہ نہیں بالکل مکمل اور طویل آیت مرد کی عورت پر نگہبانی اور حاکمیت کو ثابت کر رہی ہے اور عورت کو مرد کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تعلیم دے رہی ہے۔اس آیت کا ہر ہر جملہ ان کے لیے ایک نئی مشقت لیے ہوئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْفَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُوَ الّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا﴾ [1] ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے اموال سے (بیوی بچوں پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں وہ ہیں جو فرمانبردار ہیں اور مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت میں مال و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں ۔اور جن عورتوں سے تمہیں نافرمانی کا ڈر ہے تو انہیں سمجھاؤ ، انہیں خوابگاہوں میں الگ رکھو اور انہیں زد وکوب کرو۔ پھر اگرو ہ فرمانبردار بن جائیں تو ان کو ایذا دینے کا کو ئی بہانہ نہ ڈھونڈو۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی قوامیت کے درج ذیل پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے : ۱۔ مرد کے عورت پر قوام یا حاکم ہونے کی دو وجوہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں : (i) ایک یہ کہ مردوں کو عورتوں پر (بلحاظ جسم و قوت) فضیلت حاصل ہے۔ (ii) دوسرے اس لیے کہ بیوی بچوں پر اخراجات کی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ ۲۔ نیک عورتوں کی بھی دو صفات بیان کی گئی ہیں۔ (i) ایک یہ کہ وہ مردوں کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔ (ii) دوسرے مرد کی غیرموجودگی میں اپنی عصمت کی حفاظت کرتی ہیں۔ ۳۔ اور سرکش عورتوں کے لیے بتدریج تین اقدامات بتلائے گئے ہیں: (i) یعنی پہلے انہیں زبانی سمجھایا جائے۔ (ii) اگر باز نہ آئیں توپھر ان سے مرد الگ رہیں۔ (iii) اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کو مار کر درست کریں۔ اگر وہ اصلاح کر لیں تو سب باتیں چھوڑ دیں اور انہیں ایذانہ دیں۔
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص14 [2] المغنی:11/381 [3] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص14