کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 77
لیتے ہیں اور قرآنی تفسیر کو نسوانی نقطہ نگاہ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اور عصر حاضر کے تقاضے نبھاتے ہوئے لکھتے ہیں كہ ’’یہاں "منها" سے مراد "من جنسها" ہے یعنی خدانے جس مادہ سے آدم کو پیدا کیا ، اس مادہ سے حوا علیہا السلام کو بھی پیدا کیا۔‘‘ [1]
نسوانی نقطہ نگاہ سے تعبیرنو کی علمبردار امینہ ودود نے تخلیق میں مساوات مردو زن ثابت کرنے کے لیے ایک اور رستہ تلاش کیا ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے اسی آیت کو پیش کرنے کے بعد اس آیت میں آنے والے تین لفظ جدا کرتی ہیں "من" اور "نفس اور "زوج"۔ان کے نزدیک "مِنْ " کے دو معانی ممکن ہیں۔ ایک تو یہ’ سے‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے حاصل ہو رہی ہے۔ دوسرے معنی ’’اس کی مثل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔جب کہ "من" کبھی مثل کے معنی میں نہیں آتا لیکن امینہ اسی معنی کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو مساوات مردوزن ثابت نہیں ہوتی۔ اب اِسے تفسیر کہیں یا تعبیر یا تحریف؟ اور امینہ اگر اس آیت میں آنے والے "من" کو ’سے ‘ کے معنی سے تعبیر کریں تو انہیں عورت کو کمتر ماننا پڑے گا اور یہ ان کی فکر کے خلاف ہے۔
دوسرا لفظ وہ "نفس" لیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نفس لفظ انسان کی عمومی اساس کو بیان کرتا ہے۔ یہ صرف آدم کا ہی ذکر نہیں کرتا حوا علیہا السلام بھی اس میں شامل ہے کیونکہ یہ لفظ نہ تو مرد ہے نہ عورت اور اس سے مراد تو انسان ہے لہٰذااس حیثیت سے دونوں مساوی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ قرآن کہیں نہیں کہتا کہ تخلیق کا عمل آدم سے شروع ہوا جو ایک مرد ہے۔ "وخلق منها زوجها" سے شاید وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ آدم نے حوا علیہا السلام سے جنم لیا ہے اور حوا علیہا السلام نے بھی آدم سے ۔اس کے علاوہ تو کوئی واضح مفہوم نہیں ہے کہ ان کا نفس سے آدم کی بجائے انسان مراد لینے کا کیا مطلب ہے۔ تیسرا لفظ زوج ہے، زوج کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
’’زوج کا لفظ بھی مرد و زن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لہٰذا مساوات مرد وزن ثابت۔ مرد عورت کا زوج اور عورت مرد کا زوج۔‘‘ [2]
امینہ ودود اس لیے تاویلی طریقہ اختیار کرتی ہیں تاکہ قرآن کے مفہوم کو اس کے عمومی مروجہ معنیٰ سے پھیر لیا جائے اور حقوق نسواں کی تحریکوں کا منشا پورا کر دیا جائے۔ قرآن کے منشا اور مقصود تک رسائی کے لیے لازم ہے کہ ذہن کو تعصبات سے آزاد رکھا جائے اورانسانی تصورات و نظریات کی پختگی اور استحکام کے لیے قرآن سے دلائل تلاش کرنے کی بجائے مقصودشریعت اور احکام الٰہی کی مراد تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
[1] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم: ص9
[2] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص13
[3] سنن ابن ماجة، کتاب العتق، باب المکاتب: 2521