کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 76
عورت کی پیدائش عورت کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم میں مذکور ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً﴾ [1] ’’اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کی بیوی بنائی۔ پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔‘‘ ائمہ مفسرین کے نزدیک اس آیت میں نفس واحدہ سے مراد آدم ہیں اور نفس واحدہ کے زوج سے ان کی بیوی حوا علیہا السلام مراد ہیں پھران دونوں کے ملاپ سے بنی نوعِ انسان پیدا ہوئی۔ [2] لیکن حقوق نسواں کے داعیین نفس واحدہ سے مراد وہ پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کی کائی میں آج سے اربوں سال پہلے پیدا ہوا تھا اور "خلق منها زوجها " سے مراد اس جرثومہ کے دو ٹکڑوں میں بٹ جاناہے پھر ان دونوں ٹکڑوں کے امتزاج سے اللہ نے بہت سی خلقت پھیلا دی۔ [3] انہوں نے اس تاویل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پیدائش کے لحاظ سے مرد و عورت دونوں کی حیثیت یکساں ہے ۔ائمہ مفسرین اس غیر ضروری تاویل کو قرآن سے انحراف قرار دیتے ہیں، اور لکھتے ہیں: ۱۔ آج بھی جراثیم کی پیدائش کا سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے کہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے ہوجاتے ہیں پھران دونوں میں سے ہر ایک کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور آگے چلتا ہے اور ان میں امتزاج ہوتا ہی نہیں ہے۔ ۲۔ قرآن نے لفظ زوج کا استعمال کیا ہے یعنی نسل انسانی توالد و تناسل کے واسطہ سے آگے بڑھی ہے لہٰذا ان دو ٹکڑوںمیں سے کسی پر بھی ایک دوسرے کے لیے زوج کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ [4] ۳۔ ان وجوہ کی بنافکر جدید کی بحیثیت پیدائش مردو عورت کے یکساں حیثیت ثابت کرنے کی دلیل درست معلوم نہیں ہوتی۔ ’مساوات مرد وزن ‘کے حمایتی ایک اور مفسر﴿ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ سے "خَلَقَ مِنْ جِنْسِهَا زَوْجَهَا" مراد
[1] اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل: ص94 [2] أیضاً: ص94 [3] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص12۔13