کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 75
تاویلی ہےکہ جس میں باطنی معانی کو ظاہری معانی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ جس میں جزوی طریقے کی بجائے کلی (holistic) طریقہ پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو وہ تفہیمی (Hermeneutical) قرار دیتے ہیں۔ [1] قدیم مفسرین کا قرآن مجید کی آیات کی تفسیرکرتے ہوئے ہمیشہ یہ اسلوب رہا ہے کہ وہ تفسیر میں انتہائی محتاط رویے کا اظہار کرتے ہیں۔حقوق نسواں کی تعبیر نو کے داعیین کی تعبیر نو کا انداز محتاط نہیں بلکہ دلیرانہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ وہ مفسرین کے ناقد ہیں اور حق کی جستجو میں ردعمل کا شکار ہیں۔ مفسرین کی تفاسیر اگرچہ ان کے خصوصی رجحانات کی حامل ہیں اور انہوں نے بھی تفاسیر کی روشنی میں اپنے وقت کے غلط تصورات اور فرقوں کا رد کیا ہے لیکن انداز و اسلوب ایسا سطحی نہیں جیسا حقوق نسواں کی تفسیرنومیں ہے۔ مفسرین کامقصود حق کی راہنمائی معلوم ہوتا ہے، جب کہ حقوق نسواں کا مقصود اسلام کو پچھاڑنا محسوس ہوتا ہے۔ دیگر مفسرین نے تفاسیر لکھتے ہوئے ایسے اصول تفسیر ذکر کئے ہیں کہ جن کو وہ ترجیح دیتے ہیں اور جن کی وہ اتباع کرتے ہیں۔ حقوق نسواں کی تعبیر نو کے لئے کوئی طے شدہ ضابطہ، قانون اور اصول نہیں ہے۔ یہ اصول و قیود پابندیوں سے بغاوت کا رنگ رکھتے ہیں اور آزادی فکر کے نام سے اسے مستحسن جانتے ہیں کہ اصول و قواعد کا پابند نہ رہا جائے۔ ان کی تعبیر نو میں ایک ہی اصول ہر جگہ کارفرما نظر آتا ہے کہ قرآنی احکامات میں عورت کے لئے تخصیص کریں یا تعمیم، بہر حال اسے مرد کے برابرٹھہرانا ہے۔ کہیں عورت کے لئے استثناء ہو تو اسے عام کردیں گےاور کہیں پر عام ہے تو اسے اس طرح خاص لیا جائے کہ عورت کی مساوات ظاہر ہو۔ ان کا اسلوب یو ں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے طے شدہ نظریات کے لئے قرآنی آیات کو دلیل بنانے کاکھیل کھیل رہے ہیں۔ اس لئے ان کی تعبیر نو اصلاح کا نہیں بگاڑ کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ کہیں اپنے مطلوبہ مقاصد کے لئے حکم عمومی کے لئے شان نزول کو لازم کرتے ہیں اور کہیں اسے معدوم کرتے ہیں۔ کہیں سیاق و سباق سے مدد لیتے ہیں اور کہیں اُسے ردّ کرتے ہیں۔ حقوق نسواں کی تعبیرنو کااصل ہدف مساوات ، ترقی اور حقوق ہیں اور اسی کو وہ قرآن سے اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ 1994ء کو قاہرہ میں خواتین کی جو عالمی کانفرنس ہوئی اس کاعنوان بھی یہی تھا۔ یہی حقوق انسانی مغربی قانون کاہدف ہے۔ تعبیر نو کے حاملین کے مقاصد ان کی تحریروں سے نمایاں ہیں۔یہ مسلمانوں کو مسلمانوں کی بساط پر اُن ہی کے مہروں سے انہیں شکست دینے کی ایک انتہائی ہیبت ناک او ر ہولناک سازش ہے۔ ان خیالات کا اظہار امریکہ میں رہائش پذیر مسلم خواتین نے ایک خواتین کانفرنس میں علی الاعلان کیا کہ وہ اب علما کو ان کی بساط پر ان کے مہروں سے شکست دینے کا تہیہ کرتی ہیں۔ [2]
[1] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص8 [2] اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل: ص94