کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 73
مثلاً غیر مسلم زوجین میں سے ایک کے اسلام قبول کر لینے کے نکاح پر اثرات۔ ۸۔ شرعی عدالتوں کے قاضیوں کو تقابلی فقہ، مختلف اسلامی ممالک کے قوانین اور جدید انگریزی قانون کی تعلیم و تعلّم کے مراحل سے بھی گزارا جائے تاکہ ان میں وسعت نظری پیدا ہو۔ ۹۔ قاضیوں کی اخلاقی، روحانی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے سرکاری سطح پر کورسز، امتحانات اور تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ۱۰۔ دیہاتوں میں پنجائیت کی طرح کی دیہی عدالتوں کا تصور اجاگر کیاجائے جن میں دینی مدارس کے فارغ علما کو کچھ تربیتی کورسز سے گزارنے کے بعد مقامی سطح پر چھوٹے موٹے خاندانی قضیوں کوباہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ ۱۱۔ شرعی عدالتوں کے قاضیوں کے فیصلوں کو مدون کر کے شائع کیا جائے تاکہ وہ آنے والے ادوار میں ایک نظیر کا کام دے سکیں۔ ۱۲۔ تقابلی فقہ کی کتابوں کو بنیاد بناتے ہوئے فقہا کے اختلافات کو اختصار کے ساتھ جدید قانون کی زبان میں مدون کر دیا جائے تاکہ حوالہ جاتی کتابوں کے طور پر ان سے استفادہ ممکن حد تک آسان ہو جیسا کہ جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے فقہ حنفی کو اسی اسلوب میں کتابی شکل دی ہے۔ ۱۳۔ احکام القرآن اور احکام الاحادیث کی مستقل کتابیں لکھی جائیں، جن میں اختصار کے ساتھ احکام سے متعلقہ تمام آیات اور احادیث کو جدید اسلوب اور انداز تحقیق میں جمع کر دیا جائے۔ ۱۴۔ اعلی عدالتوں میں ایسے قاضیوں کی تقرری کی جائے جو شرعی علوم کے علاوہ جدید قانون کی تعلیم سے بھی گزرے ہوں۔ تقابلی فقہ کا وسیع مطالعہ رکھتے ہوں اور فقہی تعصبات اور گروہ بندی سے پاک ہوں۔علوم شرعیہ میں رسوخ رکھتے ہوں اور دینی میدان میں ان کی قابل قدر خدمات موجود ہوں۔امانت، دیانت، بردباری، صداقت اور شرافت جیسے اخلاقی اوصاف سے مزین ہوں۔
[1] اسرار احمد، ڈاکٹر، عہد حاضر میں اجتہاد کا طریقہ کار ، ماہنامہ میثاق، اکتوبر1997ء، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، ،ص 25۔26 [2] اسلامی ریاست : ص245