کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 72
بھی بیان کیے ہیں۔جبکہ دوسری طرف’تقنین‘کے حامل فقہا کے دلائل کی اصل بنیاد مصلحت، سد الذریعہ اور استحسان وغیرہ جیسے قواعد عامہ ہیں اگرچہ انہوں نے کتاب وسنت کی نصوص ، تجرباتی و مشاہداتی اور منطقی دلائل کو بھی بیان کیا ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے تقریباً 12 صدیوں تک اسلامی تاریخ اور مملکتیں کسی مدون قانون کے تصور سے ناآشنا رہی ہے۔ دونوں طرف کے اہل علم کے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں قسم کے موقف کے مابین جمع کی راہ نکالنے کے لیے ہم درج ذیل تجاویز پیش کررہے ہیں: ۱۔ وہ مسائل ، جو قرآن وسنت کی صریح نصوص سے ثابت ہیں اور ان پر امت کا اجماع ہے،ان میں فتاوی عالمگیری یا مجلہ الاحکام العدلیہ کے اسلوب بیان کی روشنی میں فقہی وعائلی مسائل کی تدوین کی جا سکتی ہے مثلاً غیر شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں اور چور کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا۔ ۲۔ ان انتظامی مسائل میں بھی تدوین یا کوئی ضابطہ بندی کی جا سکتی ہے کہ جو امت میں بالاتفاق اباحت کا درجہ رکھتے ہیں جیسا کہ نکاح کی رجسٹریشن، ٹریفک قوانین اور خواتین وغیرہ کے معاملات ہیں۔ سعودی عرب میں اس قسم کے مسائل کی ضابطہ بندی کو نظام کا نام دیا جاتا ہے۔ ۳۔ فقہا کے مابین اختلافی اجتہادی مسائل میں قانون سازی نہ کی جائے اور مجتہدقاضیوں کے اجتہاد پر مقدمات کا فیصلہ چھوڑ دیا جائے مثلاً طلاق ثلاثہ اور مفرور لڑکیوں کے نکاح کے مسائل وغیرہ۔ ۴۔ اس بارے مجتہدقاضیوں کو بعض ایسے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق فیصلوں کاپابند بنایا جائے جو امت کے مابین متفق علیہ ہوں۔مثلاًکوئی بھی قاضی کتاب وسنت کی صریح نصوص یامجمع علیہ مسائل کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گا۔ ۵۔ قاضیوں کے انتخاب میں ان علما کو ترجیح دی جائے جو معروف اور قابل اعتماد مدارس اسلامیہ اور اسلامی یونیورسٹیوں مثلاً جامعہ ازہر، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی وغیرہ کے کلیات شریعہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور انہوں نے قضا میں تعلیم وتربیت حاصل کی ہو۔علاوہ ازیں عالم اسلام کے مختلف خطوں سے مطلوبہ معیار پر اترنے والے اہل علم کو سرکاری سطح پر جمع کیا جائے اور ان کی بطور قاضی تقرری کی جائے۔ ۶۔ جدید مسائل کے حل کے لیے علیحدہ عدالتیں بنائی جائیں جن میں ان مسائل سے متعلقہ علوم میں رسوخ رکھنے والے علما کو قاضی مقرر کیا جائے مثلاً ڈی این اے کے ذریعے نسب کا ثبوت وغیرہ۔ ۷۔ نئے یا پیچیدہ عائلی مسائل کے حل کے لیے ایسی اعلیٰ عدالتوں کی طرف رجوع کیاجائے جن میں ایک قاضی کی بجائے، ججوں کی ایک جماعت جیسا کہ سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بنچ ہے، ان کے بارے میں فیصلہ دے
[1] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص 37 [2] اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کاحل : ص118۔119 [3] اسرار احمد، ڈاکٹر، عہد حاضر میں اجتہاد کا طریقہ کار، ماہنامہ میثاق ، اکتوبر1997ء، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور ، ص25