کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 71
۹۔ ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ تقنین سے بہت سی مصالح حاصل ہوتی ہیں اور مفاسد ختم ہوتے ہیں۔ [1]اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ دین اسلام کی بارہ سوسالہ تاریخ میں شرعی عدالتوں میں تقنین کے بغیر فیصلے ہوتے رہے ہیں لیکن کوئی مفاسد پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی مصالح کو پورا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ احوال و ظروف تبدیل ہوگئے ہیں اور جدید مسائل پیدا ہو گئے ، جن کی وجہ سے تقنین کی حاجت محسوس ہوئی ہے تو اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ حالات تو قیامت تک بدلتے رہیں گے اور دس، بیس سال کے عرصے میں ایک نئی تقنین کی ضرورت کا احساس ہو گا۔ [2] اس کا ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ تقنین میں بھی بعض مفاسد ہیں کہ جن کا تذکرہ ہم تقنین کے مانعین کے دلائل کے تحت کر چکے ہیں۔پس اگرتقنین سے کچھ مفاسدختم ہوتے ہیں توکچھ پیدا بھی ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ تقنین سے مفاسد کم پیدا ہوتے ہیں جبکہ ختم زیادہ ہوتے ہیں۔[3] اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ تقنین یا عدم تقنین دونوں میں سے کس میں مفاسد زیادہ یا نسبتاً بڑے ہیں، یہ ایک استقرائی موضوع ہے، جس میں اختلاف کی گنجائش بہر حال رہے گی کیونکہ جو علما تقنین کی حرمت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک تقنین کی صورت میں مفاسدبڑے اور زیادہ ہیں۔پاکستان کے کئی ایک نامور اور ماہر جج حضرات کا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی نفاذ شریعت کے لیے عدم تقنین کی صورت کئی ایک پہلوؤں سے تقنین سے بہتر ہے۔مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’پاکستانی اعلی عدلیہ کی کئی ممتاز شخصیتیں سعودی عرب اور پاکستان میں نفاذ شریعت کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ پاکستان کو بھی نفاذ شریعت کے سلسلے میں خلیجی ممالک کا انداز ہی اپنانا چاہیے۔جن میں جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس مرحوم کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس گل محمد خان مرحوم اس نظریہ کی اہمیت اور اس کے بعض امتیازی پہلوؤں پر انگریزی اور اردو جرائد میں لکھتے بھی رہے ہیں۔‘‘ [4] نتیجہ بحث مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں ہم اس مقصود تک پہنچے ہیں کہ عدم تقنین کے قائل علما کے موقف کی اصل بنیاد کتاب و سنت کی نصوص ہیں اگرچہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں عقلی، منطقی، تاریخی اور مشاہداتی دلائل
[1] اصلاحی، امین احسن، اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل : ص92، فاران فاؤنڈیشن، لاہور، 1982ء [2] اصلاحی، امین احسن، اسلامی ریاست : ص 247، مرکزی انجمن خدام القرآن، طبع اول، 1977ء [3] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص25۔26