کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 70
۷۔ تقنین کے قائل علما نے اپنے موقف کے حق میں یہ بھی کہا ہے کہ مجتہد قاضیوں کے بارے تو تقریباً اتفاق ہے کہ وہ کسی معین مذہب یا قانون کے پابند نہ ہوں گے لیکن مقلد قاضیوں کے لیے تقنین ایک لازمی امر ہے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ فی زمانہ مسلمان مالک میں عدالتوں میں جو قاضی اور جج حضرات مقدمات کے فیصلوں کے لیے تعنیات کیے جاتے ہیں، ان کی اکثریت مقلدین کے طبقے سے ہوتی ہے۔ [1] اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ جمہورعلما مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور حنفیہ کی ایک جماعت کے نزدیک مجتہد ہونا‘قاضی کی بنیادی شرائط میں داخل ہے۔جبکہ حنفیہ کی ایک دوسری جماعت کے نزدیک قاضی کا مجتہد ہونا واجب تو نہیں لیکن مستحب امر ضرور ہے ۔پس مجتہد قاضیوں کو عہدہ قضا دینے کی صورت میں یہ وجہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتی۔ [2] ۸۔ تمدنی ارتقاء اور کثرت ایجادات نے ہزاروں نئے مسائل کو جنم دیا ہے مثال کے طور آئے روز کاروبارکے نت نئے بیسیوں طریقے متعارف ہوتے رہتے ہیں جن سے علما اور قاضی تو کیا عام کاروباری حضرات بھی بمشکل واقف ہوتے ہیں۔اس قسم کے جدید مسائل نے قاضیوں کے لیے فیصلوں میں اس لحاظ سے مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ ان کے پاس ان مسائل سے متعلق فقہ الواقع اور واقعاتی صورتحال کا علم بہت کم ہوتاہے۔پس ان حالات میں تقنین کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ [3] اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کا حل بہت آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مختلف عدالتیں بنا دی جائیں جیسا کہ پہلے ہی سے ہر ملک میں دیوانی اور فوجداری عدالتیں تو پائی ہی جاتی ہیں، اب شرعی تجارتی عدالتیں بھی بنا لی جائیں جو صرف مالی معاملات سے متعلق مقدمات کو حل کریں۔ان تجارتی عدالتوں میں ایسے قاضیوں کا تعین کیا جائے جو علوم شرعیہ کے علاوہ معاشیات کے بھی ماہر ہوں اور یہ کوئی ناممکن امر نہیں ہے۔پاکستان ہی کی مثال لے لیں، ایسے علما موجود ہیں جو علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ جدید معاشی مسائل سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں مثلاً مولانا تقی عثمانی وغیرہ۔ جہاں تک اعلی عدالتوں کا معاملہ ہے تو وہاں اس مسئلے کا حل یوں نکالا جا سکتا ہے کہ تمام ہائی کورٹس یا سپریم کورٹ میں ایسے علما کو بطور اضافی قاضی (additional judges)کے مقرر کیا جائے کہ جو کتاب و سنت کے ساتھ جدید معاشیات کے بھی ماہر ہوں۔
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص9 [2] اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کاحل : ص91 [3] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص25۔26