کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 7
دودھ چھڑانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس ماہ بیان کی گئی ہے۔ اگر حمل اور دودھ چھڑانے کی کل مدت میں سے جو تیس ماہ بنتی ہے، دودھ چھڑانے کی مدت یعنی چوبیس ماہ نکال دیں تو باقی حمل کی مدت چھ ماہ رہ جاتی ہے۔ لہٰذا حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عورت پر حد جاری نہ کی او راسے بری کردیا۔ [1] دلالت تنبیہ وایماء نص کا علت کی طرف اس طرح اشارہ کرنا کہ حکم اور وصف باہم ملے ہوئے ہوں او راگر وصف کو علت نہ مانا جائے تو کلام ناقص ٹھہرے، دلالت تنبیہ و ایماء کہلاتا ہے۔ بالفاظ دیگرجو دلالت صریح الفاظ کی بجائے بطریق التزام حاصل ہوتی ہے، اسے ’تنبیہ و ایماء‘ کہا جاتا ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب علت لفظ کی بجائے معنی کے پہلو سے سمجھ آئے تو اسے ’دلالت تنبیہ وایماء‘ کہا جاتاہے۔ امام زرکشی رحمہ اللہ (متوفیٰ1392م) البحر المحیط میں فرماتے ہیں: "الإیماء والتنبیه وهو یدل على العلة بالالتزام" [2] ’’دلالت ایماء و تنبیہ سے مراد وہ دلالت ہے جو علت پر بطریق التزام دلالت کرے ۔‘‘ علامہ شنقیطی رحمہ اللہ (متوفیٰ1973م) فرماتے ہیں: "وأمّا دلالة الإیماء والتنبیه فهو لا تکون إلا على علة الحکم خاصة وضابطها: أن یذکر وصف مقترن بحکم في نص من نصوص الشرع على وجه لو لم یکن ذلك الوصف علة لذلك الحکم لکانت الکلام معیباً" [3] ’’دلالت ایماء وتنبیہ بالکلیہ حکم کی علت سے متعلق ہے او راس کا ضابطہ یہ ہے کہ نصوص شرع میں کسی حکم سے متعلق وصف کو اس طرح ذکر کیا جائے کہ اگر اس وصف کو ،جو نص میں موجود ہے،حکم کی علت نہ مانا جائے تو کلام میں عیب واقع ہوجائے۔‘‘ دلالت تنبیہ وایماء کی اقسام دلالت تنبیہ و ایماء کی درج ذیل چار اقسام ہیں: فاء کے ذریعے حکم کوعلت پر معلق کردینا، اس انداز میں کہ فاء علت پر داخل ہو او رحکم اس سے پہلے موجود
[1] John L. Esposito, Women in Muslim Family Laws, (New York: Syracuse University Press, 2001) p.1 [2] Ibid,p. 2 [3] Ibid [4] Ibid , p. 17 [5] Ibid, p. 35 [6] Ibid, p. 7