کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 69
۵۔ تقنین کی تائید میں ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ موجودہ دور میں مجتہد قاضیوں کا حصول بہت مشکل ہے، جبکہ مقلد قاضیوں کو عہدہ قضاء دینے کی صورت میں تقنین ایک لازمی و لا بدی امر ہے۔ [1]
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ جمہور علما کے نزدیک قاضی کا مجتہد ہونا ایک لازمی شرط ہے جبکہ مستحب تو تقریباً تمام علما نے کہا ہے،جبکہ ایسے مجتہد علما معاشرے میں بکثرت موجود ہیں جو معاصر مسائل کا حل اپنی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں پیش کر سکتے ہیں اور قدیم مسائل میں مختلف فقہی مذاہب کے مدون اقوال کے ذخیرے کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان میں سے راجح و مرجوح، شاذ و مفتی بہ، معمول بہ و غیر معمول بہ فتاوی وغیرہ میں امتیاز کر سکتے ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید مسائل میں ہر مکتبہ فکر کے علما و فقہا کے فتاوی اور رہنمائی موجود ہے۔پاکستان ہی کو لے لیں،جب بھی کوئی نیا مسئلہ درپیش آتا ہے تو ہر دوسرے دار العلوم سے اس کے حق میں یا اس کے خلاف فتوی جاری ہو جاتا ہے جیسا کہ اسلامی بینکاری کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں لکھی جانے والی فقہی کتب کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ہر مکتبہ فکر میں اس کے بارے میں دو آراء ہیں اور علما کی ہر ایک جماعت نے اپنے موقف کی تائید میں کتابیں بھی لکھی ہیں اور فتاوی بھی جاری کیے ہیں۔اس کے بعد یہ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے کہ اس دور میں مجتہد علما کا حصول ایک ناممکن امر ہے۔ہاں یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ائمہ اربعہ جیسے مجتہدین کا اس دور میں فقدان ہو لیکن اجتہاد کی جو شرائط اصول فقہ کی کتابوں میں عموماً بیان ہوئی ہیں، ان پر علما کی ایک کثیر تعداد اس دور میں بھی پورا اترتی ہے۔
۶۔ تقنین کے قائل علما نے اس کے حق میں ایک دلیل یہ بھی بیان کی ہے کہ قاضی کا مقام امام کے وکیل کاہے اور اگر امام اپنے وکیل کوتقنین کے مطابق فیصلوں کی شرط کا پابند بنائے تو یہ جائز ہے۔ [2]
اس کاجواب یہ دیا گیا ہے کہ مؤکل اپنے وکیل کو صرف انہی شروط کا پابند بنا سکتا ہے جو جائزہوں۔ جو علما تقنین کو حرام قرار دیتے ہیں‘ ان کے نزدیک امام کا قاضی پر بطور مؤکل یہ شرط عائدکرنا جائز نہ ہو گاجیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ الله فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْط )) [3]
’’ہر وہ شرط جو اللہ کی کتاب میں(یعنی قرآن وسنت کے مطابق) نہ ہو تو وہ باطل ہے‘ چاہے وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
[1] أبحاث هيئة کبار العلماء:3/235
[2] أبحاث هيئة کبار العلماء:3/235
[3] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص9
[4] تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص26