کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 68
اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ اس سے زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دو بڑے ملک، جو آج تہذیب جدید کے امام سمجھے جاتے ہیں، یعنی انگلستان اور امریکہ،انیسویں صدی کی اس تحریک تدوین سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے بلکہ بدستوراپنے اسی عرف و رواج والے طریقہ پر قائم ہیں جو ان کے ہاں قدیم سے جاری ہے۔اسی کے مطابق ان کی عدالتیں سارے معاملات کے فیصلے کر رہی ہیں اور ان کا کام بے روک ٹوک جاری ہے۔ ان کے سامنے کوئی مدون ضابطہ قانون نہیں ہے۔کیا اس صورت حال کی بنا پر یہ کہاجا سکتا ہے کہ انگلستان اور امریکہ کی عدالتیں بالکل من مانے فیصلے صادر کرتی ہیں اور ججوں کی خواہشات کے سوا وہاں کوئی اصول انصاف نہیں ہے؟یا ان کی عدالتوں کے فیصلوں میں ہم رنگی اور یکسانی کی بجائے انتشار ہے؟یاان کی عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں وہ ان قانونی تصوارت کے مطابق نہیں ہوتے جوان ملکوں میں پائے جاتے ہیں؟ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو وہ ان ملکوں کی عدالتوں کے طریقہ کار اور انکے طریقہ عدل و انصاف سے بالکل ناواقف ہے۔‘‘ [1]
عدم تقنین کی صورت میں معاملہ ایسا نہیں ہو گا کہ قاضی کسی بھی چیز کے پابند نہ ہوں بلکہ وہ بہت سے ایسے اصولوں کے پابند ہو گے جو فقہی مذاہب میں متفق علیہ ہیں۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اگر محض عرف و رواج کو اساس بنا کر انگلستان اور امریکہ کی عدالتوں کو مطلق العنانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے تو اس سے بدرجہا اقرب یہ بات ہے کہ کتاب و سنت کے نصوص، ائمہ مجتہدین کے اجتہادات اور ان کے مسلمہ اصول اجتہاد کا پابند بناکر اسلامی عدالتوں کو ہر قسم کی مطلق العنانی سے محفوظ کیا جا سکے۔اور بغیر کسی مدون قانون کی موجودگی کے ملک کے نظام عدالت کواسلامی تصور کے مطابق چلایا جا سکے۔اگر اس میں تھوڑی بہت خرابیاں پیداہو گی تو یہ اسی طرح کی خرابیاں ہوں گی جن سے کوئی نظام بھی پاک نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘ [2]
۴۔ وہ تمام آیات اور روایات بھی تقنین کے دلائل کے طور پر ذکر کی جاتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ [3]
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہی بات تو محل نزاع ہے کہ تقنین کا عمل ایک مباح امر ہے یا معصیت ہے۔ جو علما اس کو حرام قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت کیسے واجب ہو جائے گی جبکہ معصیت میں حکمران کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے۔یہ دلیل تو ان علما کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جوتقنین کے عمل کو جائز سمجھتے ہیں۔
[1] فقه النوازل:1/85۔86
[2] أیضاً:ص86
[3] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص19