کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 67
کے مطابق فیصلوں کا پابند ہو گا۔ [1]
اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ قاضی کو اگر کسی قانون کا پابند بنا بھی دیاجائے تو پھر بھی قاضی کو اس بات کا پابند بنانا تقریباً ایک ناممکن امر ہے کہ وہ اپنی خواہش نفس سے فیصلے نہ کرے۔جن اسلامی ممالک میں قانون سازی کی گئی ہے کیا ان ممالک کی عدالتوں کے قاضی اپنی خواہشات سے فیصلے نہیں کرتے؟یعنی یہ اندیشہ توتقنین کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔پس اس مسئلے کا اصل حل قاضیوں کی روحانی و اخلاقی تربیت ہے نہ کہ قانون سازی۔ قانون سازی سے ججوں کو نہ تو ماضی میں کبھی پابند کیا جا سکا ہے کہ وہ عدل کے مطابق فیصلے کریں اور نہ ہی کبھی مستقبل میں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کی عدالتیں اس مسئلے کابہترین شاہد ہیں کہ ریاست کا ایک معین قانون ہونے کے باوجود بھی قاضیوں کو اس قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند بنانا کس قدر مشکل امر ہے۔پس تقنین قاضیوں کی خواہش نفس پر قابو پانے کے لیے کوئی مؤثر حل نہیں ہے۔
اس کاایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قاضی کی شرائط میں اس کا عادل ہونا بھی ایک بنیادی شرط ہےلہٰذا تقنین کی ضرورت نہیں ہے۔اس کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی کسی مدون قانون کے بغیر ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں۔مولانااصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان معترضین کو شایدپتہ نہیں ہے کہ مدون قوانین کا رواج دنیا میں کب سے ہوا ہے؟ یہ غریب سمجھتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ اپنے عدالتی نظام کو مدون قوانین کی مدد سے چلاتی رہی ہے۔اگر عدالتوں کے لیے مرتب احکام و قوانین کے ضابطے نہ ہوں تو پھر نہ تو عدالتیں کوئی کام کرسکتی ہیں اورنہ عدل و انصاف قائم رکھنے کے لیے کوئی ممکن صورت باقی رہ جاتی ہے۔یہ خیال محض حقیقت حال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔اہل روم، جو دنیا میں قانون کے باواآدم سمجھے جاتے ہیں اور جو ایک مدت دراز تک دنیاکے ایک بڑے حصے پر حکومت کرچکے ہیں، بہت عرصے تک کسی مدون قانون سے بالکل نا آشنا رہے۔ ان کی عدالتیں صرف عرف و رواج پر معاملات کے فیصلے کرتی رہی ہیں۔اسی طرح انیسویں صدی کے شروع ہونے سے پہلے تک یورپ مدون قوانین سے تقریباً ناآشنا رہا۔ سب سے پہلاشخص نپولین ہے جس نے تدوین قانون کی طرف توجہ کی ہے۔اس نے 1804ء میں مشہور قانون نپولین کا نفاذ کیاجس کو یورپ میں تدوین قانون کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہیے۔اس کے بعد جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں نپولین ہی کے مدون کرائے ہوئے ضابطہ کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ اپنالیاگیااور اس آخری دور میں آ کر یعنی 1926ءمیں ترکوں نے جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے اسی قانون کو اپنا لیا۔‘‘ [2]
بلکہ اب بھی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جو کسی مدون قانون کے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ مولانا امین احسن
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص10
[2] فقه النوازل:1/89
[3] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص21