کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 66
کرنی پڑے گی۔لیکن ایک شخصی رائے کی حیثیت سے ایک شخص کوئی ایسا مسلک اختیار کر سکے گا جو حکومت کے اختیار کردہ مسلک سے الگ ہواور وہ اپنے اس مسلک کی حمایت میں زبان و قلم کی قوت بھی استعمال کر سکے گا۔‘‘ [1]
قائلین تقنین کے دلائل
’تقنین‘ کے قائل علما نے اس کے حق میں کئی ایک دلائل بیان کیے ہیں، جن میں اکثرو بیشتر واقعاتی و منطقی ہیں۔ ذیل میں ہم ان دلائل کا ایک مختصر تجزیہ پیش کر رہے ہیں:
۱۔ تقنین کا ایک اہم سبب یہ بیان کیاگیا ہے کہ اگر قاضیوں کو اس بات کی کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ اپنے اجتہادات کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں تو یہ اختیار لا قانونیت اور ایک ہی جیسے مقدمات میں قاضیوں کے متضاد فیصلوں کی طرف لے کر جائے گا۔ [2] اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کسی نافذ شدہ قانو ن کے بارے میں بھی قاضیوں اور ججوں کا اختلاف ختم نہیں ہوتااور کثرت سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ قانون کی تشریح و تعبیر میں وکلاء، قاضیوں یا عدلیہ کا عموماً اختلاف ہوجاتا ہے۔ [3] اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ بات تو قابل تسلیم ہے کہ تقنین نے قاضیوں کے اختلافات کو ختم نہیں کیا لیکن تقنین اختلافات کو بہت حد تک محدود کر دیتی ہے۔ [4]
۲۔ تقنین کی تائید میں ایک دلیل یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ تقنین کی صورت میں عوام الناس اور غیر ملکی سیاحوں کو اسلامی ریاست کے قوانین وضوابط کا علم ہوجاتا ہے اور ان کے لیے ان قوانین کی پابندی اور ان پر عمل پیرا ہونا نسبتاًآسان ہو جاتا ہے۔ [5]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اکثر و بیشتر اسلامی ممالک کے قوانین وضع شدہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک کی عوام ان قوانین سے لاعلم و ناواقف ہے اور وکلاء کی ایک قلیل جماعت تو اس قانون کو جانتی ہے جبکہ ان کا بھی آپس میں اور اپنے جج حضرات کے ساتھ اس قانون کی تشریح وتوضیح میں اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ [6]
۳۔ تقنین کے جواز میں ایک تیسری دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ عدم تقنین کی صورت میں یہ اندیشہ باقی رہتا ہے کہ قاضی اپنی خواہش نفس سے فیصلے کرنے لگ جائیں جبکہ تقنین کی صورت میں قاضی ایک معین قانون
[1] مجموع الفتاوی:35/360
[2] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص8
[3] فقه النوازل: 1/83