کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 65
اور فقہ حنبلی کے ائمہ فقہاء کو ہم یہ سمجھیں کہ یہ سب ہمارے بزرگ ہیں، یہ سب اہل سنت کے ا ٔئمہ ہیں۔چناچہ ان سب کے اجتہادات کو ایک مشترکہ وراثت علمی سمجھا جائے، اور بنیادی طور پر یہ بات طے ہوجائے کہ قانون سازی میں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز نہیں ہوگا۔ان دونوں باتوں میں سے میرے نزدیک دوسری بات بہت بہتر ہے۔اوربعض معاملات میں ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے حنفی ہوتے ہوئے کسی دوسری فقہ کا موقف اختیار کیا۔اسے’تلفیق بین المذاہب‘کہا جاتا ہے۔ ‘‘ [1] اسی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی ریاست کسی متعین امام کی تقلید اور کسی متعین فقہ کی پیروی کے اصول پر قائم نہیں ہو سکتی۔بلکہ یہ لازم ہے کہ اس کی بنیاد براہ راست کتاب و سنت اور اجتہاد و شوری پر ہو۔دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ پوری فقہ اسلامی بلا کسی استثنا و امتیاز کے اس کا سرمایہ ہو اور وہ تما م اجتہادی امور میں کسی تخصیص و ترجیح کے بغیر مختلف ائمہ کے اجتہادات پر نگاہ ڈال کر اپنے قانون کے لیے ان اقوال اور رایوں کو انتخاب کرے جو اس کی نظر میں کتاب و سنت اور روحِ اسلام سے قریب تر نظر آئیں۔جن امور سے متعلق اس کو پچھلے ائمہ کے اجتہادات میں کوئی نئی بات نہ ملے، کتاب وسنت کے تقاضوں کوپیش نظررکھ کر وہ خود ان کا حل معلوم کرنے کی کوشش کرے۔پچھلے ائمہ کے جو اقوال انتخاب کیے جائیں گے ان میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں بھی ہو سکیں گی۔یہ عین ممکن ہے کہ آج سابق ائمہ میں سے کسی کے کسی قول کو قانون کی حیثیت دے دی جائے لیکن کل دلائل کی قوت واضح ہونے کے بعد اس کی جگہ کسی اور کے قول کو اختیار کر لیاجائے۔ [2] ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ہمارے مختلف فقہی گروہوں میں سے ہر گروہ کا مسلک و مذہب حکومت کی نگاہوں میں یکساں عزت واحترام کا مستحق ہو گا اور ہر گروہ کے لوگوں کو اس بات کاپورا پورا موقع حاصل رہے گا کہ وہ اپنے اپنے مسلک و مذہب کے دلائل اور اس کی خوبیاں برابر پیش کرتے رہیں۔ تاکہ ہمارے ائمہ کے چھوڑے ہوئے ذخیرہ کے اندر جس قدر جواہر موجود ہیں وہ برابر نکھر نکھر کر سامنے آتے رہیں اور قانون کی تدوین کرنے والوں کو ان کے انتخاب میں آسانی ہو۔اس طریقہ پر حکومت اپنے عمل کے لیے جو قانون بنا لے گی ملک کا نظام اسی قانون کے مطابق چلے گا۔ عدالتیں اسی قانون کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں گی اور ہر شہری کو ان فیصلوں کی بے چون چرا تعمیل
[1] مجموع الفتاوی:35/357 [2] أيضا:35/359۔360