کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 64
زیر بحث اختلافی بن رہا ہے، ورنہ اصل مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ وحی(شریعت) کے علاوہ اہل علم کے لیے کسی قدیم یا جدید اجتہاد کی تقلید ضروری ہے یا نہیں؟اور علی وجہ البصیرت ہمارا جواب نفی میں ہے۔‘‘ [1]
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ کسی اسلامی ملک میں تقنین کرتے وقت تمام فقہی مذاہب کوایک ہی اسلامی مذہب خیال کرتے ہوئے ان سب سے استفادہ کیا جائے اور ان میں سے جو رائے بھی قرآن وسنت کے قریب تر اور لوگوں کی مصالح کو زیادہ پورا کرنیوالی ہو، اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔علاوہ ازیں تمام فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہوئے قانون سازی اسی صورت ہو سکتی ہے جبکہ ایسے قانون ساز علما موجود ہوں جو مسلکی تعصب اورفرقہ وارانہ معاصرت سے پاک ہوں۔ [2]
اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پرسنل لاء (Personal Law)کی حد تک ہر مذہب کے ماننے والوں کے فیصلے ان کے مسلک کے مطابق ہوں لیکن پبلک لاء (Public Law)میں کسی ایک فقہ کے مطابق قانون سازی کر دی جائے۔ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ (متوفی2010ء) اس رائے کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلامی قانون کی تدوین نو کے لیے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ایک یہ کہ چونکہ اس ملک کے عوام کی عظیم اکثریت اہل سنت والجماعت حنفی ہے،لہذا قانون سازی یعنی اجتہاد میں مسلک حنفی کے اصولوں ہی کو مدنظر رکھا جائے۔جیسے کہ ایران میں یہ طے کر دیاگیاہے کہ یہاں کا پبلک لاء فقہ جعفریہ کے مطابق ہو گااور باقی سب جتنے سنی مسلمان وہاں پر ہیں انہیں اپنے پرسنل لاء میں پوری آزادی ہو گی۔یعنی نماز جس وقت چاہیں پڑھیں، روزہ جس وقت چاہیں بند کریں اور جس وقت چاہیں کھولیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک ملک میں پبلک لاء تو دو نہیں ہو سکتے۔شیعہ اکثریت کے ملک میں وہ فقہ جعفریہ ہی ہوگا۔اس طرح پاکستان میں یہ طے کر دیا جائے کہ یہاں پر پارلیمنٹ کے اندرقانون سازی کا جو عمل ہو گاوہ فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق ہو گا۔اگر ایسا ہو جائے تو یہ بھی ایک درست طریق کار ہوگا۔‘‘ [3]
اس پر یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ پبلک لاء میں بھی ایک معین فقہ کے مطابق قانون سازی کی صورت میں مندرجہ بالا اعتراض برقرار رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ محترم ڈاکٹر اسرار رحمہ اللہ نے اس تجویز کو پیش کرنے کے معاً بعد ایک دوسری تجویز بھی پیش کی ہے جو اس کی نسبت زیادہ قابل عمل بھی ہے اور خود ان کے نزدیک راجح بھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’لیکن ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ اہل سنت کی چاروں فقہوں سے استفادہ کیا جائے۔فقہ حنفی‘ فقہ مالکی‘ فقہ شافعی
[1] المغنی:11/ 480
[2] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص8
[3] هيئة كبار العلماء، تدوین الراجح من أقوال الفقهاء، مجلة البحوث الإسلامیة،من رجب إلى شوال لسنة 1408ھ، العدد32،ص 33
[4] مجموع الفتاوی:7/71