کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 63
صورت بھی اس کو قبول نہ کریں گے۔اس صورت حال میں تقنین کا تجربہ کرنا در اصل متنوع فقہی مکاتب فکر کو باہم دست و گریباں کرنے کے مترادف ہے۔ مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس بارے لکھتے ہیں: ’’تیسرا شبہ یہ ہے کہ جس ملک کے اندر مختلف فقہی مذاہب کے پیرو بس رہے ہوں، وہ اس قسم کے کسی ضابطہ پر کس طرح مطمئن ہوں گے؟ وہ اس بات پر تو مطمئن ہوسکتے ہیں کہ اس ملک کی عدالتیں معاملات کے فیصلے کتاب و سنت کی روشنی میں کریں، کیونکہ کتاب و سنت ان سب کے درمیان مشترک ہے، لیکن ان کے لیے کسی خاص ضابطہ قانون پر مطمئن ہونا نہایت مشکل ہے۔اس صورت میں وہ بجا طور پر یہ شبہ کر سکتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی ایسی فقہ لد جائے گی جس کے کچھ حصے یا بڑے حصے کو وہ سرے سے صحیح تسلیم ہی نہ کر رہے ہوں۔‘‘ [1] ایک اور جگہ مولانا لکھتے ہیں: ’’ ماضی میں جو حکومتیں کسی متعین فقہ کی تقلید کے اصول پر قائم ہوئیں یا آج جو اس اصول پر قائم ہیں یہ صحیح اسلامی حکومت کا نمونہ نہیں ہیں۔کسی متعین فقہ کو نہ تو کتاب و سنت کا بدل قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ فقہ کے مختلف ائمہ میں سے کسی امام کو رسول اللہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔لہٰذااس طرح کی حکومتوں کو اسلامی حکومت کہنا اسلامی نظریہ سلطنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی سلطنت کی یہ بنیادی شرط ہے کہ اس کی اساس براہ راست کتاب و سنت اور اجتہاد و شوری پر ہو۔یہ حکومتیں اس کے بالکل برعکس یا تو اس اصول پر قائم ہوئیں کہ جو فقہی مذہب حکمران کا ہوا، اس نے اسی مذہب کو سارے ملک پر لا د دینا چاہا یا ملک کے باشندوں کی اکثریت جس فقہی مذہب کی پابند تھی اسی کو پورے ملک کا مذہب بنا دیاگیا۔ یہ دونوں باتیں اسلامی نظریہ سلطنت کے خلاف ہیں۔ ‘‘ [2] مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے : ’’تقنین اپنے الفاظ میں کسی خاص تعبیر و تدوین شریعت کو قانونی جامہ پہنانے کا نام ہے جو حتمی امر ہو کر ایک طرف شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتی ہے تو دوسری طرف اسے اجتہاد بھی نہیں قرار دیا جا سکتاکیونکہ اجتہاد سے تو شریعت کی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ تقنین سے فرد و معاشرہ کو ایک خاص تعبیر شریعت کی تقلید کا پابند قرار دے کے اجتہاد کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں۔قرآن مجید کی نظر میں اس کا نام ’إصر وأغلال‘ ہے۔‘‘ [3] ایک جگہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حاصل یہ ہے کہ اجتہاد ، تدوین اورتقنین الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور ان کو باہم خلط ملط کرنے سے موضوع
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص8 [2] مدنی، عبد الرحمن، حافظ، اجتماعی اجتہاد کے تناظر تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ : ص24۔25، مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور، 2005ء [3] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص8 [4] الإسلام وتقنین الأحکام في البلاد السعودیة:ص239