کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 62
مبنی معانی کو اختیار کرنے کی صورت میں نکل سکتاہے۔ [1]یہی وجہ ہے کہ سعودی علما تقنین کی بجائے تدوین کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور تدوین سے تقنین کا معنیٰ مراد لیتے ہیں۔ اس کا جواب یہ دیاجاسکتا ہے کہ نئی اصطلاحات کی ایجادیا استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر واقعتاً اس اصطلاح کے استعمال میں کچھ خطرات ہوں تو اس کے لیے نئی اصطلاح بھی وضع کی جا سکتی ہے۔ ۱۱۔ عدم تقنین کے حق میں ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ تقنین کی صورت میں شریعت کی وسعتوں، آسانیوں، سہولتوں اور رخصتوں سے استفادہ ناممکن ہو جائے گا۔اسلامی قانون میں جو وسعت ہے وہ اس ضابطہ بندی اور تدوین سے بالکل سکڑ کر رہ جائے گی ۔عدالتیں پابند ہو جائیں گی کہ وہ ہرمعاملے کا فیصلہ اس ضابطے کی روشنی میں کریں جو ان کے سامنے بنا کر رکھ دیا گیا ہے، خواہ انصاف اور شریعت الہی کا منشا پورا ہو رہا ہو یا نہ ہو رہا ہو۔ [2] مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ تقنین اپنے الفاظ میں کسی خاص تعبیر و تدوین شریعت کو قانونی جامہ پہنانے کا نام ہے جو حتمی امر ہو کر ایک طرف شریعت سازی اور خدائی اختیارات میں دخل اندازی کا موجب بنتی ہے تو دوسری طرف اسے اجتہاد بھی نہیں قرار دیا جا سکتاکیونکہ اجتہاد سے تو شریعت کی وسعتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ تقنین سے فرد و معاشرہ کو ایک خاص تعبیر شریعت کی تقلید کا پابند قرار دے کے اجتہاد کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ [3] ۱۲۔ ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی مذہب کے پیرو کار موجود ہوں بلکہ عموماً ایک ہی ریاست میں مختلف مذاہب اسلامیہ کے متبعین پائے جاتے ہیں۔پس اگر کسی خطہ ارضی میں اکثریتی فقہ کونافذ کر دیا گیا تو دوسرے مذاہب کے حاملین اس پر کبھی بھی مطمئن نہ ہوں گے۔ماضی قریب میں تقنین کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں، ان میں عموماً یہی ہوا ہے کہ اس ملک میں جس فقہ کے پیروکار زیادہ تھے، اس کے مطابق قانون سازی کر دی گئی کہ جس کا نتیجہ دیگر فقہی مذاہب کے ماننے والوں میں ریاست کے قانون پر عدم اطمینان اور تنقید کی صورت میں سامنے آیا۔اس طرح امت مسلمہ میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی پاکستان میں فقہی قانون سازی کی کوئی فکر پیش کی گئی ہے تو اہل الحدیث مکتبہ فکر نے اس کی مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ تقنین در اصل اہل الحدیث کو فقہ حنفی کا پابند و مقلد بنانے کی ایک اجتماعی سازش ہے لہٰذا وہ کسی
[1] النسائي، أحمد بن شعيب، سنن النسائي، کتاب البیوع، الرجل یبیع السلة فیستحقها مستحق :4683، دار السلام للنشر والتوزيع الرياض، الطبعة الأولى، 1999م [2] فقه النوازل:1/ 69