کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 60
میں تقنین کا نقص ظاہر ہو گا جبکہ دوسری صورت قابل عمل نہیں ہے۔ [1] مثال کے طور پر کمپیوٹر اورموبائل سے متعلقہ جرائم کے بارے میں کسی قانون سازی تک پہنچنے میں سالہاسال لگ گئے۔پاکستان میں سائبر کرائمز(Cyber crimes)اور فحش پیغامات(Messages)کے حوالے سے قانون سازی ہو رہی ہے۔ ۵۔ فقہی اقوال کی ایک کثیر تعداد میں فتوے کی بنیاد عرف ہوتا ہے۔پس اگر راجح فقہی اقوال کی تقنین کی گئی تو عرف کے بدلنے کی صورت میں یہ قوانین بے اثر ہوجائیں گے۔ظروف و احوال بدلتے رہتے ہیں اور بعض مسائل میں عرف کے تبدیل ہونے سے فقہی حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔پس عرف کے بدل جانے کی صورت میں قاضی یا جج متعین قانون کو کیسے لاگو کرے گا؟ اس صورت حال میں یاتو قاضی اجتہاد کرے گا یا پھر نئے عرف کے مطابق نئے قانون کے بننے کاانتظار۔یہاں بھی پہلی صورت میں تقنین کا نقص ظاہر ہوتاہے جبکہ دوسری صورت قابل عمل نہیں ہے۔ [2] ۶۔ تقنین پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ ’تقنین‘ کی صورت میں قاضی کا فیصلہ ناواقفیت یا عدم علم کی بنیاد پر فیصلے کادوسرا نام ہے۔شیخ عبد الرحمن بن سعد الشثری لکھتے ہیں: ’’جب قاضی معین قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا تو کیا وہ یہ کہے گا کہ یہ نافذ شدہ قانون اللہ کے اس دین کے مطابق ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور اس کے مطابق اپنی کتاب نازل کی اور اس کو اپنے بندوں کے لیے مقرر کیااور جس کے سواء کوئی دین قابل قبول نہیں ہے یا قاضی یہ کہے گا کہ اللہ کا دین جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے ، اس قانون کے خلاف ہے یا وہ یہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کیا معاملہ ہے؟پس قاضی کے لیے ان اقوال میں سے ایک قول کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔پس قاضی کے لیے پہلے قول کو اختیار کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ کا وہ دین کہ جس کے سواء کوئی دین نہیں ہے، اس کی مخالفت کسی صورت جائز نہیں ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کا کم تر درجہ یہ ہو گا کہ وہ گناہ گاروں میں شمار ہو( تو کیا معین قانون کے خلاف رائے رکھنے والا کوئی عالم دین بھی گناہ گار کہلایا جا سکتا ہے)۔اسی طرح قاضی دوسرے قول کو بھی اختیار نہیں کرے گا؟ پس تیسرے قول کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔پس کس قدر قابل تعجب بات ہے! کہ ایک ایسے امر کی بنیاد پر شرم گاہوں، خون، اموال اور حقوق کو کیسے مباح قرار دیا جائے گا اور کیسے کسی شیء کو حلال یا حرام ٹھہرایا جائے گا کہ جس کے بارے میں بہترین و راجح قول یہ ہو کہ ’میں نہیں جانتا‘۔(یعنی جہالت کی بنیاد پر اتنے بڑے فیصلے کیسے کیے جا سکتے ہیں؟)۔‘‘ [3]
[1] ابن ماجة، محمد بن يزيد، سنن ابن ماجة، کتاب الجهاد، باب لا طاعة في معصیة اﷲ:2863 دار السلام للنشروالتوزيع الرياض، الطبعة الثانية، 1999م [2] أبوداؤد، سليمان بن الأشعثت، سنن أبي داؤد، کتاب الأقضیة، باب في القاضی یخطی:3573، دار السلام للنشروالتوزيع الرياض، الطبعة الثانية، 1999م [3] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص7