کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 6
ادراک نہ کرسکتا ہو۔ [1] اشارة خفيہ كی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰنًاحَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاوَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا﴾ [2] ’’ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ ‘‘ اشارہ خفیہ کی دوسری مثال یہ آیت کریمہ ہے: ﴿ وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ﴾ [3] ’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے۔‘‘ مذکورہ بالا دونوں آیتیں بطور نص جن معانی پر دلالت کرتی ہیں، وہ یہ ہیں: ۱۔ والدین کے بارے حسن سلوک کی وصیت ۲۔ اس بناء پر ماں کی فضیلت جو وہ حمل اور رضاعت کے دنوں میں بچے کے لیے الم و مشقت برداشت کرتی ہے۔ یہ آیات انہی معانی و مفاہیم کے لیے لائی گئی ہیں۔ ان دونوں آیات سے اشارتاً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حمل کی کم ازکم مدت چھ ماہ ہے۔ ان آیات کا یہ معنی گہرے غور اور باریک بینی کانتیجہ ہے۔ اکثر صحابہ کرام سے ان آیات کا یہ معنی مخفی رہا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یہ معنی جان گئے تھے۔ مروی ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور شادی کے صرف چھ ماہ بعد اس عورت نے ایک بچے کو جنم دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے عورت کو رجم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پر حضرت علی یا حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا﴾ [4] ’’یعنی حمل اور دودھ چھڑانے کی کل مدت تیس ماہ ہے۔‘‘ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَّ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾ [5]