کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 59
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فقہی اقوال پر مبنی قانونی دفعات میں مسلسل تغیر و تبدل کی وجہ سے احکام شرعیہ پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گیاہے۔علاوہ ازیں یہ ترمیمات اس قانون کو شرعی نص اور اس کے مقصود سے بہت دور لے جاتی ہیں۔قانونی ترمیمات کے اس عمل کو روکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی انسانی عمل نقص سے خالی نہیں ہوتا۔پس ایک دفعہ اگر کسی مسئلے میں کوئی قانون بنا بھی لیا جائے تب بھی بدلتے حالات اور تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی وجہ سے اس پر مسلسل نظر ثانی کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ [1] اس کا جواب یہ دیاجا سکتا ہے کہ ایک قاضی جب اپنے اجتہاد کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرے گا تو مختلف حالات میں عین ممکن ہے اس کادوسرا اجتہاداس کے پہلے اجتہاد کے برعکس ہو۔پس قاضی پر اس صورت میں اپنے پہلے اجتہاد کی پابندی لازم نہ ہو گی اور اس کا ہر ایک اجتہاد اپنے وقت میں صحیح متصور ہو گا۔اسی طرح کا معاملہ قانون میں تبدیلی کابھی ہے۔جب لوگوں کی مصلحت اور احوال زمانہ کے ساتھ تطبیق کی وجہ سے کوئی قانونی تبدیلی کی گئی ہو تو یہ ایک خوش آئند امر ہو گا نہ کہ کوئی عیب یانقص۔ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ تقنین کی صورت میں ایک دفعہ ترمیم کے باوجوداحوال و ظروف کی تبدیلی سے بار بار ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے اور قانونی ترمیم خود ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے اور بعض اوقات اس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔پس جب قانون کسی ترمیم کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تواس دورانیے میں قاضی یا جج ایک ناقص قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند ہوتا ہے۔اسی طرح بدلتے حالات میں قانون میں مسلسل ترمیمات کی نسبت قاضی کے اجتہاد میں تبدیلی ایک بہت آسان امر ہے اور عدم تقنین کی صورت میں ایسے مشکل حالات پیش نہیں آتے۔ ۳۔ ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا گیا ہے کہ کسی ایک قول کی تقنین کی صورت میں امت مسلمہ کے عظیم فقہی ورثے اور علماے سلف کی محنتوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ [2] پس مسلمانوں کے لیے علمی و اختلافی مسائل میں وسعت و کشادگی کی بجائے تنگی متعین ہو جائے گی۔ [3] ۴۔ تہذیب و تمدن کی ترقی اور بعض دوسرے اسباب کے تحت ایسے نئے نئے واقعات اور حوادث پیش آتے رہتے ہیں کہ جن کے بارے پہلے سے کوئی قانون موجود نہیں ہوتا۔اس صورت میں یا تو قاضی ان نئے پیش آنےوالے مقدمات میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے گا یا کسی قانون کے بننے کا انتظار فرمائے گا۔پہلی صورت
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص7 [2] البخاري، محمد بن إسماعيل ، صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب السمع والطاعة للإمام ما لم تکن معصیة: 7145، دار السلام للنشروالتوزيع الرياض، الطبعة الثانية، 1999م