کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 58
میں ترکہ کی تقسیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔پس جب وہ ورثا حاکم کے پاس فیصلہ حاصل کرنے کے لیے آئیں اوراس وقت حاکم علما کے کسی ایک قول کے مطابق فیصلہ کر دے تو ہر ایک فریق حاکم کے اس فیصلے کا پابند ہو گا اور کوئی فریق یہ نہ کہے گا کہ میں اس فیصلے سے اس وقت راضی ہوں گا جبکہ حاکم دوسرے قول کے مطابق فیصلہ کرے۔اسی طرح اگرکسی چیز کے بارے میں حاکم کے پاس دو شخص فیصلہ حاصل کرنے کے لیے آئیں جبکہ ان میں ایک شخص مدعی ہو تو حاکم ان کے مابین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اور جس کے بارے میں حاکم نے فیصلہ کیا ہے اس پر حاکم کا حکم لازم ہو جائے گااور اس شخص کے لیے(حاکم کو)یہ کہناجائز نہ ہو گا: تو نے اس قول کے مطابق فیصلہ کیا ہے جو مجھے پسند نہیں ہے۔حاکم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد کرے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے اور اگر اس نے خطاکی تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔‘‘ [1] مانعین تقنین کے تجرباتی، مشاہداتی اور عقلی دلائل و اعتراضات جو علما ’تقنین‘ کے خلاف ہیں،ا نہوں نے تقنین کے رد میں بعض ایسے دلائل بھی نقل کیے ہیں جن کا تعلق شریعت کی بجائے مشاہدے اور تجربے سے ہے۔ذیل میں ہم ان دلائل کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں: ۱۔ تقنین پر ایک اعتراض یہ وارد کیا گیا ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص میں جو جامعیت اور اعجاز ہے، اس کو انسانی کلام میں محصور کرنا ناممکن ہے۔انسانی کلام بالآخر انسانی ہے، کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لی جائے، پھر بھی اس میں بشری کمزوریوں کا ایک پَرتو موجود رہے گالہٰذا احکام الٰہی کی تقنین کی صورت میں قانونی عبارتوں کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ایک مشکل امر ہے۔ [2] پس عدم تقنین کی صورت میں قضا کے بنیادی مصادر نصوص شرعیہ ہوں گی اور تقنین کی صورت میں انسانی کلام ، اگرچہ وہ انسانی کلام نصوص ہی سے کیوں نہ ماخوذ ہوکیونکہ اصل اور فرع میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ۲۔ ماضی قریب میں ’تقنین‘ کے جن تجربات سے مختلف اقوام گزری ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قانون سازی کا عمل مسلسل ارتقاء سے گزرتا رہتا ہے۔اس عمل میں کئی ایک نشیب و فراز آتے ہیں اور بالآخر جس فقہی قول کو بنیاد بناتے ہوئے کوئی قانون سازی کی گئی ہوتی ہے، وہ مختلف ترمیمات کے مراحل سے گزرنے کے بعد کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ [3]
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص7 [2] سورة الشوری:42: 10 [3] سورة النساء:4: 59 [4] بكر عبد الله بن زيد،الشيخ، فقه النوازل:1/61، مؤسسة الرسالة، بيروت