کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 57
خلاف قاضی کا فیصلہ نافذکیاجارہا ہو وہ شخص اس مسئلے میں کسی دوسرے قول کا قائل ہو تو ایسی صورت میں قاضی کے قول کا نفاذ ایک عامی پر کیسے جائز ہو گا؟
اس اعتراض کا جواب امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کیا جا سکتا ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں حکام کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو کسی معین قول کا پابند بنائے۔ [1] امام صاحب اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسی طرح مسلمان علما کے مابین وراثت کے کئی ایک مسائل میں اختلاف ہوا...علاوہ ازیں طلاق وغیرہ اور عبادات مثلاً نماز، روزہ ،حج وغیرہ اور زیارت قبورکے بھی اکثر مسائل میں علما کا اختلاف نقل ہوا ہے...اسی طرح قرآنی آیات کی تفسیر میں بھی ان کا اختلاف مروی ہے اور بعض احادیث کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ان تمام امور میں کسی حاکم، چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو ، کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر اس کو مذکورہ بالا مسائل میں سے کسی مسئلے میں کسی شخص سے اختلاف ہو جائے تو وہ اس شخص پر اپنے قول کے مطابق فیصلہ نافذ کرے اوروہ یہ کہے:میں تجھ پر یہ بات لازم ٹھہراتا ہوں کہ ایسا نہ کر یا صرف میرے مذہب کے موافق قول کے مطابق ہی فتوی دے۔حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل میں فیصلے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور حاکم وقت مسلمانوں میں سے ایک ہے۔پس اگر اس کے پاس علم ہے تو اس علم کے مطابق اس مسئلے میں گفتگو کرے گا۔اسی طرح اگر حکمران سے جھگڑا کرنیوالے شخص کے پاس بھی علم ہے تو وہ بھی اس علم کے مطابق گفتگو کرے گا۔پس اس گفتگو کے دوران اگر حق بات ظاہر ہو جائے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم فریقین کو معلوم ہوجائے تو ہر ایک پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اتباع فرض ہو گی۔لیکن اگر اس بحث کے باوجود بھی اللہ کا حکم ان پر مخفی رہے تو ہرایک قول کے قائل کو اس کے قول پر برقرار رکھا جائے گا۔ہر ایک قول کا قائل اپنے مذہب پر برقرار رہے گا اور ان میں سے کسی ایک فریق کو بھی یہ اختیار نہیں ہو گا کہ وہ دوسرے کو اس کے قول سے منع کرے مگر علم، دلیل اور بیان کی بنیاد پر۔پس وہ اپنے علم کے مطابق بات کرے گا۔‘‘ [2]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک حاکم کی اجتہادی رائے رفع نزاع کے لیے مدعی اور مدعی علیہ پر نافذ ہو سکتی ہے۔ اس بارے وہ فرماتے ہیں:
’’جہاں تک کسی پرزبردستی اور جبراً اپنی رائے مسلط کرنے کا معاملہ ہے تو حاکم کو اس کا اختیار صرف ان معین مسائل میں ہے کہ جن میں فیصلے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے مثلاً ایک شخص مر گیااور اس کے ورثا
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین: ص11
[2] سورة النساء:4: 105
[3] سورة المائدة:5: 48
[4] سورة ص :38: 26