کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 56
مسائل میں کسی معین فقہی قول کا پابند نہیں بنایا جاسکتاجیساکہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ وغیرہ نے لکھا ہے۔ [1] اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اجماع کا یہ دعوی خلاف واقعہ ہے کیونکہ اس مسئلے میں علما کااختلاف نقل ہوا ہے۔ [2]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس مسئلے میں جن علما کا اختلاف نقل ہوا ہے تو وہ مقلد قاضی کے بارے میں ہے نہ کہ مجتہدکے بارے میں۔محل اختلاف تو یہ ہے کہ اگرکوئی قاضی درجہ اجتہاد پر فائز ہو اورحق بات تک رسائی حاصل کر لے یا کوئی مقلد قاضی اپنے مذہب کے کسی قول کو حق سمجھ رہا ہو جبکہ ریاست کا قانون اس کے خلاف ہو تو کیا اس کے باوجود بھی اس قاضی کے لیے اس حق کے خلاف اورریاست کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہو گا تو اس مسئلے میں علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [3]اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو اس کو شرک قرار دیاہے کہ ایک قاضی کسی مقدمے میں حق بات کوپہچان لے اور پھر بھی کسی وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ کرے۔ [4]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مجتہد قاضیوں کا حصول مشکل ہے کہ جو معاشرے کی ضرورت پوری کر سکیں۔ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں یہ محسوس ہو گا کہ جدید مسائل میں ہر مکتبہ فکر کے علما و فقہا کے فتاوی اور رہنمائی موجود ہے۔پاکستان ہی کو لے لیں،جب بھی کوئی نیا مسئلہ درپیش آتا ہے تو ہر دوسرے دار العلوم سے اس کے حق میں یا اس کے خلاف فتوی جاری ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے یا معاصر علما میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے۔ علما کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو جدیدمعاصر مسائل کا حل اپنی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں پیش کر سکتی ہے اور قدیم مسائل میں مختلف فقہی مذاہب کے مدون اقوال کے ذخیرے کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان میں سے راجح و مرجوح، شاذ و مفتی بہ، معمول بہ و غیر معمول بہ فتاوی وغیرہ میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سوچنے کی بات ہے کہ ایک ریاست میں ہائی کورٹس یا سپریم کورٹ کے قاضیوں کی تعداد ہی کیا ہوتی ہے؟یہ کوئی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے کہ اس قدر مجتہد علما کسی خطہ ارضی میں موجود نہ ہو۔
اس پر یہ اعتراض بھی وارد کیا جا سکتا ہے کہ اگر تقنین نہ بھی کی جائے تو اس صورت میں بھی اگرقاضی مجتہد ہو اور کسی تنازع میں مختلف فیہ اقوال موجود ہوں تو قاضی تو قرآن و سنت کی روشنی میں ان اقوال میں سے ایک ہی قول کے مطابق فیصلہ کرے گا جو اس کے نزدیک راجح اور حق ہو گا۔اور اس کا عین امکان موجود ہے کہ جس کے
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین: ص6
[2] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم: ص19۔20