کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 55
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ دلیل ہی درست نہیں ہے۔حضرت عثمان نے کوئی نیا مصحف یا قراء ت جاری نہیں فرمائی تھی بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع کیے گئے مصحف کو بنیاد بناتے ہوئے کچھ نئے ایسے مصحف تیار کروائے تھے، جن کے رسم الخط میں ممکن حد تک متواتر قراء ات کو سمونے کی کوشش کی گئی تھی۔دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ اس مصحف عثمانی پر صحابہ کا اجماع تھا اور صحابہ کا اجماع بذات خود ایک شرعی دلیل ہے۔پس اس دلیل سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اجماعی مسائل میں تقنین جائز ہے اور اس کے سب قائل ہیں۔اصل نزاع تو مجتہد فیہ اور اختلافی مسائل میں تقنین کاہے۔
بعض علما نے تقنین کو ایک ایسی بدعت قرار دیا جسے سلف صالحین کے دور میں مردود قرار دے دیا گیا تھا۔تقنین کی فکر خلیفہ جعفر منصور(متوفیٰ158ھ) کی طرف سے امام مالک رحمہ اللہ پر پہلی دفعہ پیش کی گئی تو انہوں نے اس فکر کا رد کیا اور اس کے فساد کو واضح کیا۔پس ایک ایسی شیء کہ جس کو سلف صالحین کے زمانے میں بدعات میں شمار کیا گیا ہو، اس میں کیا خیر ہو سکتی ہے؟ [1] اسی طرح مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک کتاب وسنت کی بجائے جدید انداز پر دفعہ وار دستور و قانون کی شکل میں شریعت کی تشکیل نو کا مسئلہ ہے تو تقنین ِشریعت کی یہ صورت کوئی پختہ اسلامی تصور نہیں ہے بلکہ یہ تصور مغرب سے متاثر جدید ذہن کی پیداوار ہے جو فرانس کی تقلید میں مسلمانوں میں درآمد ہوا ہے۔‘‘ [2]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ سلف صالحین کے زمانے میں تقنین کے دواعی موجود نہ تھے لہٰذا اس کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی ۔ [3]
اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سلف صالحین کے دور میں ’تقنین‘ کے دواعی موجود نہ تھے۔ابن المقفع رحمہ اللہ (متوفی 142ھ) نے جو خط خلیفہ جعفر منصور کو لکھا تھا، اس میں انہوں نے تقنین کے بعض دواعی کا بھی تذکرہ کیا تھا۔جیسا کہ امیر المؤمنین ان دوشہروں اور ان کے علاوہ خلافت اسلامیہ کے دوسرے شہروں اور علاقوں کا حال دیکھ رہیں ہیں کہ ان شہروں میں قصاص، نکاح و زنا اور مالی معاملات کے بارے مختلف شرعی احکام کے تعین میں فقہاء و علماء کا اختلاف بہت بڑھ گیا ہے۔ [4]
۷۔ تقنین کاعمل اجماع امت کی خلاف ورزی ہے کیونکہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی شخص کو مختلف فیہ
[1] علم اصول فقہ ایک تعارف : 3/222
[2] أيضا : 3/ 231
[3] ظفر علی راجا، ڈاکٹر،سود کی عدالتی ممانعت کے بعد، ماہنامہ محدث، ص3 فروری 2000ء ، ج 32ع2، مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور