کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 54
معاویہ رضی اللہ عنہ نے میری طرف یہ لکھ بھیجا ہے کہ جس شخص کا بھی کوئی مال چوری ہوجائے تو وہ شخص اس مال کا سب سے زیادہ حقدار ہے جہاں بھی وہ اس کو پالے۔پس مروان نے یہی خط میری طرف بھی لکھ بھیجا تو میں نے مروان کو لکھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ اگرکسی شخص نے بغیر کسی تہمت اپنے سر لیے چور سے وہ مال خرید لیا تھاتو اب اصل مالک(یعنی جس کی وہ چیز چوری ہوئی تھی) کو یہ اختیارحاصل ہوگا کہ اگر چاہے تو اس چوری شدہ مال کو اس کی قیمت کے بدلے واپس لے لے اور اگر چاہے تو چور کا پیچھا کرے۔پھر اسی حدیث کے مطابق فیصلہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔پس مروان نے میرا یہ خط حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیا۔پس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کی طرف یہ جوابی خط لکھا کہ تم اور اُسید میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہے بلکہ میں تمہیں یہ حکم اس بنیاد پرجاری کر رہا ہوں کہ میں تم دونوں پر حکمران بنایاگیاہوں۔پس جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے اسے نافذ کرو۔پس مروان نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ حکم میری طرف بھیج دیا تو میں نے کہا: جب تک میں یہاں کا گورنر ہوں ،اپنی امارت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہیں کروں گا۔‘‘ [1] اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اگر حکمران کی طرف سے کسی قانون کا الزام درست ہوتا تو حضرت اُسید بن حضیررضی اللہ عنہ اس سے انکار نہ کرتے۔لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ اس دورمیں بھی حکمران کی طرف سے کسی قانون کے الزام کی سوچ ضرور موجود تھی۔ اس دلیل کا یہ جواب دیاجاسکتا ہے کہ اگر حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کسی قانون کے الزام کو ناجائز قرار دیا تو حضرت معاویہ کے ہاں یہ درست تھا۔پس ایک صحابی کا قول و عمل دوسرے کے قول و عمل پر کیسے راجح قرار دیا جا سکتا ہے؟ ۶۔ تقنین کا عمل سلف صالحین کے طرز عمل کے خلاف ہے۔خلفائے راشدین‘ تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ اربعہ حتی کے بارہ صدیوں تک مسلمانوں کے ہاں تقنین کا رواج نہیں تھا اور اس کے باوجود بھی ان کی شرعی عدالتوں میں تمام مقدمات اور تنازعات کے فیصلے باحسن و خوبی انجام پا رہے تھے۔ [2] اس کا جواب یہ دیاگیاہے کہ سلف صالحین کے زمانے میں بھی تقنین ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عثمان کے زمانے میں انہوں نے سرکاری مصاحف کی تیاری کے بعد باقی مصاحف کو جلانے کا حکم جاری فرما دیا تھااورقرآن کی قراء ت میں اس سرکاری مصحف کی پابندی کو لازم قرار دیا۔
[1] علم اصول فقہ ایک تعارف : 3/ 211۔212 [2] أيضا : 3/213 [3] أيضا : 3/ 214۔2015