کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 53
کے دلائل، طرق استنباط،اختلاف فقہا اور ان کے اسباب سے ناواقف ہو اور وہ اس عہدے پر فائز کر دیا جائے اور وہ اپنی جہالت کے باوصف صرف ریاستی قانون کی تقلید میں ایسے فیصلے کرے تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔
بعض حضرات نے اس کاجواب یوں دیا ہے كہ کوئی قاضی یہ محسوس کرے کہ ایک خاص معاملہ میں مدون قانون شریعت کے حقیقی منشا سے کچھ مختلف ہے اور اس کو اس مدون قانون کی پابندی کے سبب سے ایک ایسا فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے جو اس کے خیال میں منشائے شریعت کے خلاف ہے۔ لیکن اسے سوچنا چاہیے کہ یہ اس کی ایک انفرادی رائے ہے جو اس مدون ضابطے کے مقابل میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس پروقت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہے‘ یا کم سے کم ان کی اکثریت اس کے شریعت سے اوفق ہونے پر مطمئن ہے۔ [1]
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1997م) کے اس نقطہ نظرمیں کئی ایک غلطیاں ہیں۔مثلاًان کا یہ کہنا کہ جب کوئی قاضی کسی مدون ضابطے یا قانون کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو وہ اجماع کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔اصلاً تو جدید مسائل میں اجماع کا وقوع ہی ناممکن ہے اور اگروہ قاضی مجتہد ہے تو اس کے اختلاف کے باوجود اجماع کیسے منعقد ہو گیا اور اگر وہ مقلد ہے تو اجتہاد نہیں کرے گااور اجتہاد نہ کرنے کی صورت میں اس کو اختلاف بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح ایک مجتہد قاضی جمہور کی رائے کا کیسے پابند ہوسکتا ہے جب کہ قرآن کی صریح نصوص اس کو یہ حکم جاری کر رہی ہیں کہ وہ اس کی پیروی کرے جس کو وہ حق سمجھتا ہے۔علاوہ ازیں علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک شخص جب کسی شرعی مسئلے میں حق کو پہچان لے تو اس کے لیے اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔ [2]
اس کا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ تقنین کو زیادہ سے زیادہ جمہور کی رائے قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جمہور کی رائے بھی ضروری نہیں ہے کہ حق ہی ہو۔اگر ایسا ہوتا تو امت کے علما کا ضرور اس بات پر بھی اتفاق ہو تاکہ جس مسئلے میں ائمہ اربعہ یا ائمہ ثلاثہ متفق ہوں تو وہ حق ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں ہے جبکہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔اکثر و بیشتر مسائل میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد(متوفی 241ھ) رحمہم اللہ کاقول ایک ہی ہوتا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کسی دوسری رائے کے حامل ہوتے ہیں۔کیا جن مسائل میں ائمہ ثلاثہ کا اتفاق ہو ، حنفیہ کوان مسائل میں ان ائمہ کے فتوی کاجبراً اس لیے پابند بنا دینا چاہیے کہ یہ جمہور کی رائے اور اقرب الی الصواب ہے؟
۵۔ تقنین کی حرمت کے قائل علما نے درج ذیل روایت سے بھی اس کے عدم جواز پر استدلال کیاہے کہ حضرت اُسیدبن حضیر یمامہ کے گورنر تھے۔پس مروان نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ خط لکھا کہ حضرت
[1] علم اصول فقہ ایک تعارف: 3/ 208
[2] مجموعہ قوانین اسلام: 1/ 17
[3] محمد امین، ڈاکٹر، عصر حاضر اور اسلام کا نظام قانون : ص179، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، طبع اول، 1989ء