کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 52
جاؤ۔پس جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ کو یقین ہو گیا کہ وہ لوگ اس میں کودنے والے ہیں تووہ کہنے لگے:ٹھہرے رہو!میں توتمہارے ساتھ صرف مزاح کر رہا تھا۔ پس جب ہم واپس آئے تو بعض افراد نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعے کا تذکرہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس جو بھی تمہیں اللہ کی نافرمانی کاحکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘ [1]پس تقنین کی صورت میں اگر کوئی جج کسی مسئلے میں ریاستی قانون کو’معروف‘ کی بجائے’منکر ‘خیال کرے تو اس کے لیے اس قانون کے مطابق فیصلے کرنا لازم نہ ہوگا۔ اس دلیل کاجواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی مسئلے میں تقنین نہ بھی ہو تو اس صورت میں بھی توامکان ہے کہ ایک شہری یاعالم دین کے نزدیک ایک فعل معروف ہو جبکہ کسی قاضی یا جج کے ہاں اس فعل کا شمار منکرات میں ہوتا ہو۔تو پھر اس قاضی یا جج کے فیصلے کا الزام اس پر کیوں درست مانا جائے؟ اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ عدم تقنین کی صورت میں اصل مصادر یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کا حق دونوں کے پاس باقی رہتا ہے جبکہ تقنین کے ذریعے قرآن وسنت کی طرف رجوع کایہ حق قاضی، مدعی اور مدعی علیہ سب کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ ۴۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قاضی کے بارے میں جہنم کی وعید وارد ہوئی ہے جو حق بات کو پہچاننے کے بعد بھی اس کے خلاف فیصلہ کرے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّار)) [2] ’’قاضی تین قسم کے ہیں:ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو آگ میں ہوں گے۔پس جو جنت میں جائے گا وہ‘ وہ قاضی ہے جس نے حق کو پہچان کر اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ اور دوسرا وہ قاضی کہ جس نے حق بات کو پہچان کر اس کے خلاف فیصلہ کیاتو یہ شخص آگ میں داخل ہو گا جبکہ تیسرا وہ قاضی کہ جس نے بغیر علم کے فیصلہ کیا تو وہ بھی آگ میں ہو گا۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مجتہد قاضی کسی مسئلے میں حق تک رسائی کے بعد بھی اس کے خلاف ریاستی یا ملکی قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرے تو وہ اس وعید میں داخل ہوگا ۔ [3] اور اگر کوئی قاضی یا جج شرعی احکام،ان
[1] مجموعہ قوانین اسلام: 1/ 16 [2] علم اصول فقہ ایک تعارف : 3/ 207