کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 51
طلب بات یہ ہے کہ) ان علما نے یہ اقوال کہاں سے لیے ہیں؟ [1]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلاشبہ فقہی اقوال کی بنیاد بھی کتاب و سنت اور دوسرے مصادر شریعت ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا راجح فقہی اقوال کتاب و سنت کا غیر نہیں ہیں بلکہ ان کی نصوص کا اخذشدہ فہم ہیں۔لیکن اصل محل نزاع یہ نہیں ہے۔اختلاف اس میں ہے کہ اگر کسی شہری یا علماء کی جماعت کو ریاستی قانون کے بار ے میں یہ اعتراض ہو کہ یہ شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اس اختلاف کے حل کے لیے معیار کیا ہو گا؟ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ معیار قرآن وسنت ہو گانہ کہ ملکی و ریاستی قانون۔پس تقنین کے بعد بھی اگر کسی قانون کے بارے میں یہ اختلاف ہوجائے کہ وہ شرعی ہے یا غیر شرعی تو اس صورت میں اصل مصادر قرآن وسنت ہی ہوں گے۔اور اگر یہی مسئلہ محل نزاع بن جائے کہ تقنین جائز ہے یا حرام تو اس کا تعین بھی قرآن و سنت ہی سے ہو گا۔ہاں! اگر کسی مسئلے میں مدعی‘ مدعی علیہ اور متعلقہ عدالت کے قاضی کا اتفا ق ہو کہ اس بارے میں ملکی قانون شریعت کے عین مطابق ہے تو اس صورت میں یہ اعتراض بھی رفع ہو جاتا ہے۔
۳۔ حکمران یا امیر کی اطاعت صرف اس صورت میں فرض قرار دی گئی ہے جبکہ ایسی اطاعت معروف کے دائرے میں ہو۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: "إنما الطاعة في المعروف" یعنی ’’اطاعت تو صرف معروف کے دائرے میں ہے۔‘‘ [2]
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ بن مجزر کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا اور میں بھی اس لشکر میں شامل تھاپس جب لڑائی ختم ہونے کو آئی یا وہ رستے میں تھے تو لشکر میں سے ایک گروہ نے ان سے اجازت چاہی تو حضرت علقمہ بن مجزر نے ان کو جازت دے دی اور ان پر عبد اللہ بن حذافہ بن قیس کو امیر مقرر کیا ۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھاجنہوں نے ان کے ساتھ مل کر جنگ لڑی ۔ جب ہم رستے میں تھے توکچھ لوگوں نے آگ جلائی تاکہ اس سے حرارت حاصل کر سکیں یا اس پر کچھ کھاناتیار کر سکیں،تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ نے کہا کہ اور وہ ایک ہنس مکھ آدمی تھےکہ کیا تمہارے لیے میری بات کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں ہے؟تو ان کے باقی ساتھی کہنے لگے :کیوں نہیں !حضرت عبد اللہ بن حذافہ نے کہا :میں جو بھی تمہیں حکم دوں گا کیا مانو گے؟ انہوں نے کہا:ہاں! تو حضر ت عبد اللہ بن حذافہ نے کہا:میں تمہارے اوپر سختی کروں گا اگر تم اس آگ میں نہ کودے۔ توکچھ لوگوں نے کہا :پس تم (اس آگ میں کودنے کے لیے )تیار ہو
[1] تنزیل الرحمان، جسٹس (ر)، مجموعہ قوانین اسلام: 1/15۔16، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، اشاعت پنجم، 2004ء
[2] علم اصول فقہ ایک تعارف :3/ 195۔196
[3] أيضا :3/ 199