کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 50
ان آیات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کووحی اور حق کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور حق کیا ہے؟ایک مجتہد کے لیے وہ کسی ایک فقہی مذہب یا تقنین کی صورت میں کسی ریاستی قانون میں محصور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ فقہاء کا راجح قول اس قانون کے واضعین کے نزدیک توحق ہو گا لیکن دوسرے فقہا،علما، قاضیوں اور ججوں کے ہاں عین ممکن ہے، حق کچھ اور ہو۔پس اس صورت میں قاضیوں کے لیے اس قانون کا التزا م ضروری نہ ہو گا اور نہ ہی اس قانون کے التزام کی شرط ججوں کو عہدہ قضاء دیتے وقت یا اس کے بعد عائدکی جا سکتی ہے۔ [1] ۲۔ قرآن میں مسلمانوں کے مابین باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے اصل معیارکتاب و سنت کو قرار دیا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جس چیز میں بھی تمہارے مابین اختلاف ہو جائے پس اس کا حکم اللہ کی طرف لوٹا دو۔‘‘ [2]ایک اور جگہ ارشاد ہے:’’اے وہ لوگو! جو ایمان لے کر آئے ہو۔تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے امراء کی بھی اطاعت کرو۔ پس اگر تمہارے (اور حکمرانوں کے) مابین کسی مسئلے میں تنازع ہو جائے تو اس مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو، اگر تو تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ [3] ان آیات مبارکہ میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف رجوع کو واجب قرار دیا گیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کسی معین مذہب یا رائے یا قانون میں محصور نہیں ہے۔بعض اوقات ایک مجتہد قاضی کسی مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس مسئلے میں ریاستی قانون اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ پس اس صورت میں اس قاضی کے لیے اس قانون کے تحت فیصلہ کس طرح جائز ہو جائے گا؟ مؤخر الذکر آیت مبارکہ میں لفظ "شیئ" نکرہ ہے جو شرط کے سیاق میں ہے اور عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب نفی، نہی یا شرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے یعنی اس وقت اس عبارت سے عموم کا بیان متکلم کا مقصود و منشا ہوتا ہے۔ [4] ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی کے مطابق ان آیات سے استدلال کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ لازمی امر ہے کہ جن راجح اقوال کو علماء نے تقنین کے لیے اختیار کیا ہے وہ حق کے خلاف ہی ہوں یاجب ہم ان راجح اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔پس(غور
[1] تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم: ص7 [2] علم اصول فقہ ایک تعارف : 3/ 188