کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 5
دلالت اشارہ کی مثالیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ ﴾ [1]
’’(مالِ فے) ان مہاجر مسکینوں کیلئے ہے ،جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں۔‘‘
اس آیت کے الفاظ اس مفہوم پر دلالت کرتے ہیں کہ جو مہاجرین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تھے، ان کا فے کے مال میں حصہ ہے۔ یہ معنیٰ نص ہے او ریہ اس آیت کے وارد ہونے کا مقصود اصلی ہے۔ ’دلالت اشارہ‘ سے معلوم ہوا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی جو جائیدادیں ان کے سابقہ وطن مکہ میں تھیں او رجن پر کفار مکہ نے قبضہ کرلیا تھا، اب وہ ان کی ملکیت سے نکل چکی ہیں، کیونکہ اس آیت میں مہاجرین کے لیے لفظ "الفقراء" استعمال ہوا ہے۔ "فقر" حقیقت میں کسی مال کی عدم ملکیت کا نام ہے، مال سے محض دوری کو فقر نہیں کہا جاتا۔ فقر کی ضد غنی ہے اور ا س کا معنیٰ مال کی ملکیت کا ہونا ہے۔ صرف مال کا قرب کسی آدمی کو غنی نہیں کرتا۔اس لیے مسافر حقیقت میں غنی ہے اگرچہ وہ اپنے مال و جائیداد سے دور ہوتا ہے لیکن مال پر اس کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ مسافرفقیر نہیں ہوتا لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
اس آیت میں لایا گیا لفظ "الفقراء" اشارۃ ًیہ معنی دیتا ہے کہ مہاجرین جن جائیدادوں کو مکہ میں چھوڑ آئے ہیں وہ ان کی ملکیت سے خارج ہوچکی ہیں۔ اگر مہاجرین کو مکہ میں چھوڑی ہوئی جائیدادوں کا بدستور مالک تصور کیا جائے تو پھر مہاجرین کا فقر ثابت نہیں ہوتا جبکہ قرآن مجید نے انہیں "فقراء" کہا ہے۔
’دلالت اشارہ ‘کی اقسام
دلالت اشارہ کی درج ذیل دو اقسام ہیں: 1۔ اشارۃ ظاہرہ 2۔ اشارۃ خفیہ
1۔اشارۃ ظاہرہ
یعنی جس سے نص کے التزامی معنی معمولی غوروفکر سے سمجھ میں آجائیں۔ اس کی مثال اوپر گزر چکی ہے۔
2۔ اشارۃ خفیہ
دلالت اشارہ کی اس قسم میں معنی و مفہوم معلوم کرنے کے لیے غوروفکر اور دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دلالت کی اس صورت میں اشارہ خفیہ اور دقیق ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے او رمعلوم کرنے میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے ۔ نص کے اشارہ خفیہ سے ایک مجتہد وہ معنیٰ معلوم کرسکتا ہے جس کا دوسرا مجتہد